کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 86
یہ ظاہری حالات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ علامہ شہید رحمۃ اللہ علیہ اور حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اُمید ہے کہ والعاقبة للمتقین والے حسن انجام سے فائز المرام ہوئے ہیں۔ برد اللّٰه مَضجعهُما وجعل الجنة مثواهما !! حاجی ظہور الٰہی صاحب مرحوم، عالم دین نہیں تھے۔ کوئی اونچے منصب دار بھی نہیں تھے اور کوئی رئیس کبیر بھی نہیں تھے۔ ایک متوسط تاجر، خوش حال اور کھاتے پیتے، معاشرے کے ایک عام فرد تھے۔متوسط طبقے کے ایسے افراد ہزاروں نہیں، لاکھوں کی تعداد میں ہیں، لیکن حاجی صاحب موصوف میں دو خوبیاں ایسی تھیں جس نے اُنہیں عام تجارت پیشہ افراد سے ممتاز کردیا تھا اور اسی امتیاز کے ساتھ وہ اپنے اللہ کے حضور پہنچ گئے۔ وہ دو خوبیاں ایسی ہیں کہ وہ اگر متوسط طبقے کے تاجروں اور خاندانوں میں عام ہوجائیں تو معاشرے کی کایا پلٹ جائے، بے دینی کے سیلاب کا رُخ مڑ جائے اور بے حیائی کا بڑھتا ہوا طوفان رُک جائے یا کم از کم اس کی شدت میں نمایاں کمی ہوجائے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان خوبیوں کو اُجاگر کیا جائے تاکہ دوسرے لوگ بھی اُنہیں اپنائیں اور بگڑے ہوئے ماحول اور معاشرے کی اصلاح میں حاجی صاحب مرحوم کی طرح اپنا کردار ادا کریں۔ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کی زندگی قول و عمل کے تضاد سے پاک تھی، جو زبان پر تھا، وہی ول میں اور جو دل میں ہوتا وہی زبان پر ہوتا۔ ایمان و تقویٰ کا وعظ، دوسروں کو ہی نہ کرتے، خود ان کی اپنی زندگی اور اس کے معمولات بھی ایمان و تقویٰ کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ احکام و فرائض اسلام کے سختی سے پابند، اخلاص و عمل کا پیکر اور نہایت اکل کھرے انسان تھے۔ہر جگہ اور ہر موقعے پر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے اور رسم و رواج کے بڑھتے ہوئے طوفان پر کُڑھتے ہی نہیں تھے، اس کے خلاف عملی جہاد فرماتے۔ غرض ان کی زندگی، ریا، منافقت اور د وعملی سے پاک تھی۔ دین کی غیرت و حمیت کوٹ کوٹ کر ان کے اندر بھری ہوئی تھی۔ چال میں مومنانہ وقار اورتمکنت تھی اور کردار میں صحابہ رضی اللہ عنہم جیسی پاکبازی اور سچائی، زبان ذکر الٰہی سے سرشار اور چہرہ نور الٰہی سے منور۔ إذا رؤوا ذکر اللّٰه کا پیکر حسین اور حسن سیرت و صورت کا مُرقّع جمیل ....آہ