کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 84
مسلمانوں کے حقوق و مفاد کی سارے براعظم ہندوستان کے اندر ملکی حفاظت پر عقیدہ رکھتا ہوں۔ 2. میں ملتِ اسلامیہ ہند کو براعظم ہند کے اندر ایک مستقل قومیت یقین کرتا اور فکر اسلامی کا مسلک قبول کرتا ہوں اور عہد کرتا ہوں کہ تمام فکروں پر فکرِ اسلامی کو اور تمام مفادوں پر مفادِ اسلامی کو اور تمام وفا داریوں پر وفادارئ اسلام کو برتر، غالب و مقدم رکھوں گا۔ 3. میں مسلم لیگ کے اُصول، اغراض و ضوابط کے ماتحت لیگ کے فیصلوں اور حکموں کی پوری تائید کروں گا اور لیگ کے پروگراموں کی کامیابی کے لئے خلوص سے کام کروں گا۔ وما توفیقی الا باللہ دستخط (پورا نام) ممبر .................... رکنیت فارم کی اس عبارت کو اگر بغور پڑھا یا سُن لیا جائے تو کسی ناخواندہ کو بھی یہ بات سمجھ آ جائے گی کہ آل انڈیا مسلم لیگ یا قائداعظم کے پیش نظر کیا مقاصد تھے، تمام فکروں پر فکرِ اسلامی، تمام مفادوں پر مفادِ اسلام اور تمام وفا داریوں پر وفادارئ اسلام کو برتر، غالب اور مقدم رکھنے کا عہد کس نظریہ کا غماض ہے۔ افسوس کہ مسلم لیگ کے لئے یہ میثاقِ رکنیت ایک بھولا ہُوا سبق بن گیا، ذاتی اور سیاسی مفادات نے برتر، غالب اور مقدم حیثیت حاصل کر لی ،حالانکہ قیام پاکستان نے اس عہد کو عملی شکل دینے کی راہ ہموار کر دی تھی۔ مسلم لیگ بلاشبہ اس حوالے سے مجرمانہ غفلت کا شکار ہوئی ہے۔ [کالم شائع شدہ روزنامہ نوائے وقت لاہور، 26/مئی 2013ء]