کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 82
پاکستان کو 'پریمیر اسلامی ریاست 'قرار دیااور زور دے کر کہا کہ پاکستان کادستور جمہوری ہوگا جس کی بنیاد اسلامی اُصولوں پررکھی جائے گی۔ ملکی قوانین کو اسلامی اصولوں کے مطابق تشکیل دینے کے لئے قائداعظم نے ڈاکٹراسد کی سربراہی میں باقاعدہ ایک محکمہ قائم کیا جو قائداعظم کی وفات کے بعد اپنا کام پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا سکا۔ مختصر یہ کہ اقبال اور جناح کاتصورِ پاکستان ایک اسلامی ریاست کاتصور ہے اور یہی نظریۂپاکستان ہے لیکن سیکولر حضرات کو یہ تصور گوارہ نہیں چنانچہ وہ نظریئے ہی سے انکاری ہیں جبکہ یہ نظریہ ہماری ساری تاریخ میں پھیلا ہوا ہے۔ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ قائداعظم نے کبھی آئیڈیالوجی کا لفظ ادا نہیں کیا جبکہ صرف 23 مارچ 1940 کی تقریر میں قائداعظم نے یہ لفظ تین بار اد ا کیا، البتہ سیکولر کا لفظ کبھی قائداعظم کے منہ سے نہیں نکلا۔ کچھ روشن خیال قائداعظم پر سیکولرازم کا غلاف چڑھانے کے لئے جسٹس منیر کی کتاب 'جناح ٹوضیا' کا حوالہ دیتے ہیں۔ اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ کاؤس جی، پرویز ہود بھائی اور دوسرے سیکولر دانشور اس کتاب سے جن الفاظ کاحوالہ دیتے ہیں وہ الفاظ جسٹس منیر نے قائداعظم کے منہ میں ڈالے ہیں اور برطانوی نژاد سلینہ کریم اپنی کتاب 'سیکولر جناح' میں تحقیق سے ثابت کرچکی ہے کہ وہ الفاظ قائداعظم کے نہیں، ان کی انگریزی گرامر بھی غلط ہے اور الفاظ بھی جسٹس منیر کے ہیں۔ کچھ حضرات مطالبہ کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ نظریۂ پاکستان کی وضاحت کرے۔ سپریم کورٹ جسٹس حمود الرحمٰن کی سربراہی میں نظریۂ پاکستان کی وضاحت کرچکی ہے جو پی ایل ڈی 1973 سپریم کورٹ صفحہ 49اور 72،73 پر موجود ہے۔ دو سطریں ملاحظہ فرمایئے: "پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اس کا نظریہ 1949ء کی قرارداد مقاصد میں درج ہے جسے پاکستان کی دستورساز اسمبلی نے منظور کیاہے... مملکت ِ پاکستان اسلامی نظریئے کی بنیاد پروجود میں لائی گئی تھی اور اس نظریئے کی بنیاد پر چلائی جائے گی۔" تجاہل عارفانہ کی حد دیکھئے کہ نظریہ پاکستان یحییٰ خان کے دورمیں جنرل شیرعلی کی ایجاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد نظریہ پاکستان پر بہت کچھ لکھا گیا۔ جنرل شیرعلی