کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 81
میں پاپائیت یا تھیوکریسی کا تصور موجود ہے۔ مسئلہ توفقط اتنا سا ہے کہ سیکولر حضرات اسلامی ریاست اور اسلامی قانون کے تصور سے گھبراتے ہیں۔ وہ دین سے بیزار اوربیگانہ ہیں اور وہ پاکستان میں انہی آزادیوں کا خواب دیکھتے ہیں جومغرب کے جمہوری ممالک میں بہ افراط پائی جاتی ہیں۔اُنہیں مغربی لباس میں ملبوس سگار کے کش لگاتا جناح تو پسند ہے لیکن وہ جناح پسند نہیں جس نے 27جولائی 1944ء کو راولپنڈی میں واضح کر دیا تھا: "پاکستان کے دستور کے متعلق کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ ہمارے پاس 1300 سال سے دستورموجودہے۔" ایک سوال کے جواب میں قائداعظم نے کہا کہ "پاکستان میں شراب پر یقینا پابندی ہوگی۔" (قائداعظم کے شب و روز موٴلفہ خورشید احمد خان، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد صفحہ نمبر 10) لطف کی بات ہے کہ آج قائداعظم کا نام استعمال کرنے والی سیاسی جماعتیں غیرشرعی عادات کے شکاراُمیدواروں کو ٹکٹ دے رہی ہیں۔ اسلامی دستور، اسلامی قانون کے لئے قائم ہونے والی ریاست کا تصور یا نظریہ نہ سیکولر حضرات کو گوارہ ہے اور نہ ہی اُن سیاسی قائدین کو جو اسمبلیوں میں اراکین کو اسلامی کردار کی بنا پر نہیں بلکہ دولت کی طاقت پرپہچاننا چاہتی ہیں۔ یہی وہ جمہوریت ہے جس سے اقبال نالاں تھے۔ "اقبال نے جمہوری طرز ِ حکومت پر جو تنقید کی ہے وہ بھی اس لئے کہ غریب اور جاہل عوام کو سرمایہ دار خرید لیتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔ وہ جمہوریت کو روحانی اقدار کا پابند کرنا چاہتے تھے۔" (علم کا مسافر ڈاکٹر طالب حسین سیال ص 86) کالم کا دامن محدود ہے اس لئے اختصار سے کام لینا پڑے گا۔ نظریہ ٴ پاکستان کو سمجھنے کے لئے علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کے ان فقروں پر غور فرمائیں:"برعظیم پاک و ہند میں ایک اسلامی مملکت قائم کرنے کا مطالبہ بالکل حق بجانب ہے۔ اسلام کو بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم رکھ سکے۔" اقبال کے تصور پاکستان کو سمجھنے کے لئے ان کے خطوط بنام جناح (37،1936ء) کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101 بار واضح کیا کہ پاکستان کے دستور اور قانونی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اُصولوں پر استوار کی جائے گی اور قیام پاکستان کے بعد یہی بات چودہ بار کہی۔ فروری 1948 میں بحیثیت گورنر جنرل انہوں نے امریکی عوام کے نام ریڈیو پیغام میں