کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 80
گے۔ ہماری تعلیم اس وقت مکمل ہوگی جب ہم خود اس کے مالک ہوں گے اورہمارے سروں پرکلمے کا تاج ہوگا۔ اسی لئے علامہ اقبال نے آل پارٹیزکانفرنس دہلی میں یکم جنوری 1929ء کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: "میں اس حقیقت کا اعتراف کرتاہوں کہ آج سے نصف صدی قبل سرسید احمد خان نے مسلمانوں کے لئے جو راہ ِ عمل تجویز کی تھی، وہ درست تھی۔ تلخ تجربات کے بعد میں اسی نتیجے پرپہنچا ہوں۔" ہا ں تو میں عرض کر رہا تھا کہ علامہ اقبال سے لے کر قائداعظم تک ایک ہی قسم کا تصور پیش کیا گیا اور وہی نظریۂ پاکستان ہے۔ وہ تصور کیا تھا؟ مختصر الفاظ میں وہ نظریہ فقط یہ تھا کہ ہندو اورمسلمان ہر لحاظ سے دو مختلف اور الگ الگ قومیں ہیں، اس لئے مسلمانوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ مسلمان اکثریتی علاقوں پر جو جغرافیائی طورپر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ایک علیحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ کریں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اقبال اورجناح محض ایک جغرافیائی ملک کا مطالبہ کر رہے تھے؟ سطحی نظر سے بھی مطالعہ کریں تو واضح ہو جاتا ہے کہ وہ ایک اسلامی ریاست کا مطالبہ کر رہے تھے جہاں مسلمان اپنے مذہب، ثقافت، دین اورشریعت کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ گویا اس مطالبے کی بنیاد دو اُصولوں پر تھی۔ اوّل مسلمان ہندوالگ الگ قومیں ہیں، دوم ہمارا مقصد ایک اسلامی ریاست قائم کرنا ہے۔ سادہ الفاظ میں یہی تصور ِ پاکستان تھا اوریہی نظریۂ پاکستان ہے جس کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے خون بہایا، قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، اپنے گھر بار اور بزرگوں کی قبروں کو چھوڑکر ہجرت کی اورماؤں بہنوں کی عصمتیں لٹائیں۔ سیکولر حضرات کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی نظریۂ پاکستان ختم ہوگیا کیونکہ وہ صرف تصور ِ پاکستان کے پہلے حصے کا ذکر کرتے ہیں اور دوسرے حصے سے خوفزدہ ہو کر اسے 'اِگنور' کردیتے ہیں۔ چلئے ہندو مسلم الگ الگ قوموں کا نظریہ قیام پاکستان کے ساتھ ختم ہوگیا لیکن پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا مقصد تو پورا نہیں ہوا۔ یہاں اسلامی ریاست سے مراد مذہبی شخصیات کی اجارہ دار ریاست نہیں اور نہ ہی اسلام