کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 8
میں'اخوان آن لائن'نامی ویب سائٹ پر ان کا باضابطہ اُسبوعی پیغام نشر ہوتا ہے۔مصری غاصب حکومت کے ان اقدامات پر اُن پیغامات کا لب ولہجہ اس بیان سے محسوس کیا جاسکتاہے ۔ اُنہوں نے وحشت وبربریت کے جواب میں غاصب حاکموں کویہ پیغام دیا کہ ''ہم بھاگے نہیں کیونکہ ہم چور اچکے اور تشدد پسند نہیں۔ مصری فوج کا کام سرحدوں پر ملک کی حفاظت کرنا ہےاور ہمارا کام ملک کو ایک منتخب قیادت دینا ہے۔آپ سرحدوں کی حفاظت پر واپس لوٹ جاؤ اور منتخب صدر کو صدارت لوٹا دو۔ہم تمہاری گولیوں اور ٹینکوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ ہم اس وقت تک لاشیں اُٹھاتے رہیں گےجب تک مصر کے فرعونوں کو گھر نہیں بھیج دیتے۔'' ان الم ناک حالات میں نام نہاد مہذب دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے، مسلمانوں کے حکمرانوں اور او آئی سی کو بھی سانپ سونگھا ہوا ہے۔عرب حکمران اس لئے دم سادھے بیٹھے ہیں کہ اُنہیں یقین نہیں کہ مصر کی یہ غاصب حکومت کب تک مسلط رہتی ہے، اس لئے ایسے حالات میں اُنہیں عدل وانصاف سے بڑھ کر مصری حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات پیارے ہیں۔ وہ ایک ملک کے حکمرانوں، چاہے وہ غاصب ہی کیوں نہ ہوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ کرنے سے گھبراتے ہیں۔ مصری فوج ہر طرح کوشش کررہی ہے کہ کسی صورت ان کی غاصبانہ حکومت اور جبر وتشدد کی روش راہ پکڑ لے۔ حال میں اسمٰعیل بلیباوی کو عبوری وزیر اعظم نامزد کیا گیا ہے، اور اس نے ماضی کی برسراقتدار اخوانی اور سلفی جماعتوں کو حکومت میں شریک ہونے کا لالچ دیا ہے لیکن 42 اور 24 فیصد اکثریت رکھنے والی ان سیاسی جماعتوں نے اس وقت تک کسی بھی عہدے کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے جب تک صدر مرسی کو بحال نہیں کیا جاتا۔ اخوان کے مرشدِ عام کی گرفتاری کو اسی انکار کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے، اس انکار کے بعد وزیر اعظم نے اخوان کو تحلیل کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔حکومت نے اگلے برس کے آغاز میں قومی اور پھر صدارتی انتخابات کا اعلان کیا ہے لیکن کوئی اس اعلان پر یقین نہیں کررہا کیونکہ جبر وتشدد کے نتیجے میں ماضی کا نیوٹرل مصری بھی دینی جماعتوں کو اپنی تائید سے نوازے گا اور اخوانی وسلفی جماعتیں انتخابات کے نتیجے میں پہلے سے زیادہ اکثریت حاصل کریں گی۔ فوج کی ناعاقبت اندیش کاروائیوں نے مصری عوام کو پوری طرح لادینیت کے خلاف متحد کردیا ہے۔ان حالات میں فوجی حکومت سے کوئی نادان ہی یہ توقع کرسکتا ہے کہ وہ آزادانہ انتخابات کا خطرہ مول لے گی۔