کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 79
خدا جانے ہمارے یہ مہربان پاکستان کی نظریاتی اساس کوباربارکیوں مشق ستم بناتے اوران حقائق سے انکارکرتے ہیں جن سے ہماری پوری تاریخ بھری پڑی ہے۔ مقصد نوجوان نسلوں کوکنفیوژ کرنا ہے یا پاکستان کے تصور کو مشکوک بنانا، مجھے علم نہیں لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے جب پڑھے لکھے ڈگری یافتہ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نظریۂ پاکستان نام کی کوئی شے موجود ہی نہیں او ر نہ ہی کبھی قائداعظم کے منہ سے آئیڈیالوجی کا لفظ نکلا تھا۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک اتنا بڑا ملک جو 1947ءمیں دنیاے اسلام کا سب سے بڑا ملک تھااور جو برصغیر کی تقسیم کے نتیجے کے طور پر ظہور پذیر ہوا، وہ کسی نظریئے اور تصور کے بغیر وجود میں آگیا اور پھر عالمی تاریخ کی سب سے بڑی 'ہجرت' کسی نظریئے کے بغیر معرضِ وجود میں آگئی۔ لاکھوں لوگ اپنے صدیوں پرانے گھر، جائیدادیں اور آباؤ اجداد کی قبریں چھوڑکر بلاوجہ نئے ملک اور اجنبی جگہ پر آ کر آباد ہوگئے۔ کیا کبھی انسانی تاریخ میں ایسا ہوا ہے؟ آگے بڑھنے سے قبل مجھے عرض کرنے دیجئے کہ مسلمان اکثریتی علاقوں پرمشتمل ایک اسلامی ریاست کا قیام ہندوستان کے مسلمانوں کا صدیوں پرانا خواب تھا جس کے شواہد مغلیہ خاندان کے زوال کے بعد ہماری پوری تاریخ میں پھیلے ہوئے ہیں۔اسی نفسیات اورمسلمانوں کے دیرینہ خواب کو سمجھتے ہوئے قائداعظم نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان تو اسی روزمعرضِ وجود میں آگیا جس روز ہندوستان کی سرزمین پرپہلے مسلمان نے قدم رکھا۔ پھر کہا کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں، میں نے فقط یہ کیاکہ جو بات آپ کے دلوں اور ذہنوں میں تھی، اسے طشت ازبام کردیا یعنی ببانگِ دہل کہہ دیا۔ اگرپاکستان کا تصور نظریاتی نہیں تھا تو پھر وہ اسی دن کیوں معرضِ وجود میں آگیا جس دن ہندوستان میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا؟ سادہ سی بات صرف اتنی ہے کہ ہماری ماڈرن تاریخ میں تصور ِ پاکستان کی بنیاد سرسید احمد خان نے رکھی جب اُنہوں نے 1894ءمیں جالندھر میں تقریرکرتے ہوئے کہاکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ دونوں قومیں (ہندو اور مسلمان) زیادہ عرصے تک اکٹھی نہیں رہ سکیں گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اُن کے درمیان فاصلے بڑھتے جائیں گے۔ مسلمان ہندوؤں سے علیحدہ ہو کر فائدہ میں رہیں