کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 78
اسلام اور پاکستان ڈاکٹر صفدر محمود نظریۂ پاکستان اور اس کا انکار! حالیہ انتخابات میں جملہ اسلامیانِ پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا مقصد، ہدف اور نعرہ کسی مقبول سیاسی جماعت نے نہیں اپنایااور اگر کسی نے ڈھکے چھپے لفظوں میں اسے پیش بھی کیا تو عوام پاکستان نے اُس کو خاص پذیرائی نہیں بخشی ۔ بلکہ اس سے بڑھ کر انتخابات سے قبل پاکستان کے نظریہ جو ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے، اُس سے ہی سرے انکار کیا جاتا رہا۔اگر 'الیکشن کمیشن آف پاکستان' کے بعض اہل کاروں نے دستور کی دفعہ 62،63 کی تصدیق کرتے ہوئے اسلام کی بنیادی معلومات پر مبنی سوالات اُمیدواروں سے دریافت کئے تو اُنہیں اس سے روک کر، اُن کی چھان پھٹک کو محض مالی بدعنوانی یا تعلیمی اسناد تک محدود کردیا گیا۔ان حالات میں ایسے ممبران سے کیا توقع کی جائے کہ وہ کتاب وسنت کی روشنی میں قانون سازی کریں گے، جب کہ وہ اسلام کی اساسات سے بھی واقف نہیں۔ نظریہ پاکستان کے بارے میں واضح رہنا چاہئے کہ اگر یہ مسئلہ امر واقعہ میں تحقیق طلب تھا تو بہر حال اب اس کی تحقیق کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ قیام پاکستان کے بعد قرار داد مقاصد 1949ء اور 1973ء کے متفقہ آئین میں واضح طورپر یہ قرار دیا جاچکا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور یہاں کتاب وسنّت کو فروغ دیا جائے گا۔ اس دستور کو عوام پاکستان کے منتخب نمائندے منظور کرچکے ہیں، عدالتیں اس کی بناپر فیصلہ کرتی ہیں اور یہ جمہوری اساسات پر ایک مسلمہ بن چکا ہے کہ پاکستان میں اسلام نظام کو قائم کیا جائے گا، اس کے باوجود نامعلوم کیوں، پاکستان کے سیکولر حضرات اپنی رٹ لگائی رکھتے ہیں اور میڈیا ان کی بے تکی ہانک کو اُچھالتا رہا ہے، اب اس طے شدہ قضیہ کو موضوع بنانا لکیر پیٹنے کے ہی مترادف ہے۔اس بنیادی سوال کا فیصلہ قرار داد مقاصد کی آئینی دستاویز بخوبی کردیتی ہے کہ پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا؟... الیکشن سے قبل کے ایام میں جاری اسی مباحثہ میں درج ذیل دو کالم خصوصی افادیت کے حامل رہے، معلومات میں اضافہ کی خاطر ملاحظہ کیجئے۔ ح م