کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 77
جائے تو شاید مناسب ہو۔ یہ چند سطریں اس لئے لکھی گئی ہیں کہ علماے کرام اور اربابِِ افتا اس جزئیہ پر نظرثانی کریں۔ واللّٰه هو المستعان و عليه التّكلان ان اُمور کے علاوہ ہمارے فلاسفہ اسلام نے خلع کی جو روح اور حکمت بتائی ہے وہ بھی اس سے مطابقت رکھتی ہے جو امام مالک کا مسلک ہے۔ چنانچہ حافظ ابن رشد مالکی لکھتے ہیں: ''خلع عورت کے اختیار میں اس لیے رکھا گیا ہے کہ مرد کے اختیار میں طلاق ہے۔ چنانچہ جب عورت کو مرد کی طرف سے کوئی تکلیف ہو تو اس کے اختیار میں خلع ہے اور جب مرد کو عورت کی طرف سے تکلیف ہو تو شریعت نے اسے طلاق کا اختیار دیا ہے۔'' [1] [جدید فقہی مسائل:حصہ دوم، ص97تا107 طبع حرا پبلی کیشنز، اُردو بازار، لاہور] عبارت کی تصحیح 'محدث' کے گذشتہ شمارے نمبر361 میں شائع شدہ اس مضمون کی پہلی قسط یعنی 'تفویض طلاق والے' مضمون میں ص66 کی سطر نمبر14 کو اس طرح پڑھیں: دوسری صورت خیار طلاق کی ہے.... اور سطر نمبر17 اس طرح پڑھیں: تیسری صورت جو بعض آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے، یہ ہے ... قاری حضرات مضمون میں یہ ضروری تصحیحات کرلیں۔ شکریہ ... ادارہ
[1] بدایۃ المجتہد: 2/ 68