کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 76
کی ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہی مسلک نقل کیا گیا ہے۔ احناف کےدلائل کا تجزیہ احناف کےدلائل اس مسئلہ میں قابل غور ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ اصل یہ ہے کہ طلاق کا اختیار مرد کے ہاتھ میں ہے، تسلیم ہے مگر اس سےبھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مقاصدِ نکاح کی حفاظت اور زوجین کی مصلحتوں کی رعایت کےپیش نظر قاضی بھی بہت سی صورتوں میں تفریق کا مختار بن جاتا ہے۔ یہاں بھی زوجین کےبڑھتے ہوئے شدید اور ناقابل حل اختلاف کو پیش نظر رکھ کر جب قاضی کےنمائندے اس نتیجہ پر پہنچ جائیں کہ ان دونوں میں تفریق اور علیحدگی ہوجانی چاہیے تو مقاصدِنکاح کی حفاظت اور دونوں کو اللہ کی حدوں پر قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوگا کہ یہ لگام مرد سے لے لی جائے اور قاضی کی طرف سے مقرر شدہ حَکم از خود تفریق کردیں۔ احناف کا یہ استدلال کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شوہر کو اس کا اقرار کرنے پر مجبور کیوں کیا کہ وہ بھی حکم کے فیصلہ کےمطابق مصالحت اور علیحدگی ہر دو صورت پر آمادہ ہو۔ کیونکہ اگر حکم کو اس کا اختیارہوگا تو شوہر کااقرار کرنا اور انکار کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا، بھی دو ٹوک نہیں ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم خیال حضرات کےنزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس حکم کی حیثیت وہی تھی جو نامرد کو طلاق کا حکم دینے کے سلسلے میں ہے۔ یعنی اگر شوہر نامرد ہو اور عورت نے یہ ثابت کردیاکہ وہ اس سے علیحدگی کی حقدار ہے تو قاضی پہلے خود شوہر سے کہے گا کہ وہ عورت کو طلاق دے دے، مرد اگر اس پر آمادہ ہوگیا تو ٹھیک ہے ورنہ خود قاضی اس کی طرف سے عورت کو طلاق دے دے گا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کامطالبہ یہاں اسی نوعیت کا تھا کہ اگر شوہر خود طلاق دے دے تو بہتر ہے ورنہ پھر قاضی کے نمائندے حکمین خود اس ناخوشگوار فریضہ کو انجام دیں گے۔ ہمارے زمانے میں جہالت او راحکامِ شرع سے بے خبری اور اس کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں ظلم و زیادتی اور اختلافات کی روشنی میں اگر اس مسئلہ میں فقہاے مالکیہ کی رائے قبول کرلی