کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 75
مختار ہوتا ہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ دونوں ہی حَکم کسی ایک رائے پر متفق ہوجائیں۔ 6. اس سلسلہ کا دوسرا واقعہ وہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد ِخلافت کا واقعہ ہے جس کا مجمل ذکر اس سے پہلے ہوچکا ہے۔ دارقطنی نے محمد بن سیرین کےواسطہ سے صحیح سند سے اس واقعہ کی تفصیل ان الفاظ میں نقل کی ہے کہ ایک شوہر و بیوی اپنے اپنے لوگوں کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے شوہر و بیوی ہرایک کے لوگوں میں سے ایک ایک حَکم منتخب کیےگئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُن دونوں سےمخاطب ہوکر فرمایا:کیا تم کو اپنے ذمّہ داری معلوم ہے؟ تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ مناسب سمجھو تو دونوں میں علیحدگی کرا دو۔ عورت نے کہا: میں اللہ کی کتاب پر راضی ہوں چاہے اس کا فیصلہ میرے حق میں ہو یامیرے خلاف...! شوہر نے کہا کہ جہاں تک علیحدگی کی بات ہے تو میں اس کے لئے تیار نہیں ہوں۔ (أما الفرقة فلا) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نےجھوٹ کہا، تم بھی جب تک اس عورت کی طرح اقرار نہ کرلو، یہاں سے جا نہیں سکتے۔ اس مقدمہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حَکمین سے کہنا کہ کیاتم اپنی ذمہ داری سے واقف ہو، تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ اگر تم چاہو تو علیحدگی کرا دو(هَلْ تَدْرِيَانِ مَا عَلَيْكُمَا؟ عَلَيْكُمَا إِنْ رَأَيْتُمَا أَنْ تُفَرِّقَا فَرَّقْتُمَا) [1]اس بات کی علامت ہے کہ حَکمین بحیثیتِ حَکم تفریق کا اختیار رکھتے ہیں اوروہ اس کے ذمّہ دار ہیں۔ اگر ان کی حیثیت محض وکیل کی ہوتی تو سوال اس طرح ہوتا ''کیاتمہیں معلوم ہے کہ تم کس بات کے وکیل بنائے گئےہو؟(هل تدريان ما وكلّتما) پھر یہ کہ خلع میں اگر ایک طرفہ مرد کی رضا مندی ضروری ہوتی اور قاضی کو اس سلسلہ میں کوئی اختیار نہ ہوتا تو یہ بات بھی درست نہ ہوتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس پر طلاق کی آمادگی کے لئے دباؤڈالیں، وہ زیادہ سے زیادہ سفارش اور اپیل ہی کرسکتے تھے۔ ان وجوہ کی بنا پر واقعہ ہے کہ اس مسئلہ میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی رائے زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے اور یہی رائے اکثر فقہا: اوزاعی، اسحاق، شعبی، نخعی، طاؤس، ابوسلمہ، ابراہیم، مجاہد اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہم
[1] الجامع الاحکام القرآن للقرطبی: 5/177... سورۃ النساء: 35