کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 74
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ باغ لے لو اور اس کو طلاق دے د و((اقبل الحديقة وطلِّقها تطليقةً)) اور ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو حکم دیا لہٰذا اُنہوں نے بیوی کو علیحدہ کریا۔ (أمره ففارقها) [1] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک اور روایت اور نسائی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نام جمیلہ بنت عبداللہ تھا۔اس حدیث میں واقعہ کا یہ پہلو بہت قابل غور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ سے اپیل نہیں کی نہ مشورہ کیا بلکہ دو ٹوک لفظوں میں طلاق دینے کا حکم فرمایا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ قاضی مرد کی رضا مندی اور آمادگی معلوم کرنے کا پابند نہ ہوگا بلکہ حسبِ ضرورت اس کو اپنی صوابدید پر نافذ کرے گا۔ اب اس کےنافذ کرنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ خود مرد اس بات کے لیے تیار ہوجائے اور طلاق دے دے جیسا کہ اس واقعہ میں ہوا، یاپھر قاضی خود علیحدہ کردے۔ آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم احادیث کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کے آثار اور معمول پرنظر ڈالیے: 5. اس نوعیت کا ایک واقعہ سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں پیش آیا۔ ان کے زمانہ میں عقیل رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ عتبہ(جو میاں بیوی تھے) کےدرمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے شکایت کی ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو بحیثیتِ حَکم بھیجا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: (أفرقن بينهما) ''میں ضرور ان دونوں میں تفریق کردوں گا۔'' اورمعاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں عبدمناف کے دو بزرگ خانوادوں میں تفریق نہیں کرسکتا (ما كنت لا فرق بَيْنَ شَيْخَيْنِ مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَاف) یہاں تک کہ ان دونوں نے باہم خود ہی مصالحت کرلی۔[2] یہاں بھی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بحیثیتِ حکم فرمانا کہ میں ان دونوں کےدرمیان ضرور تفریق کردوں گا، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حَکم بحیثیتِ حَکم خود ہی تفریق کےمعاملہ میں
[1] صحیح بخاری:5273،5276 [2] الجامع الاحکام القرآن للقرطبی: 5/176... سورۃ النساء: 35