کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 73
کے مقرر کردہ حَکمین کو قانونی اختیار حاصل نہ ہو تو قرآن کا قاضی کومخاطب بنانا اور قاضی ہی کی طرف سے حَکمین کی تقرّری ایک بے معنی بات ہوجائے گی۔اس لیے قضاۃ اور حکام سے خطاب بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اس مسئلہ میں قاضی کے نمائندہ کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہونی چاہیے کہ وہ چاہے تو مصالحت کرا دے یااپنی صوابدید پرعلیحدگی کردے۔ 2. دوسرے قاضی کے بھیجے ہوئے ان نمائندوں کے لیے قرآن نے حَکم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ حَکم کے معنی خود حکم اور فیصلہ کرنے والے کے ہیں۔اب اگر اس کی حیثیت محض طرفین کےوکیل کی ہو اور وہ ان کے احکام کا پابند ہو تو وہ حکم اور فیصل کہاں باقی رہا۔ اس تعبیر کا تقاضا بھی ہے کہ وہ تفریق اور مصالحت کےمعاملہ میں خود مختار ہوں ۔ 3. تیسرے قرآن نے یہاں ﴿إِن يُر‌يدا إِصلـحًا﴾ کہا ہے: ''اگر حَکمین ان دونوں میں مصالحت کرانا چاہیں۔'' یہاں حکمین کی طرف 'ارادہ' اور 'چاہنے' کی نسبت کی گئی ہے اور ایسی بات اسی کے بارے میں کہی جاسکتی ہے جو کسی کام کے کرنے اور اس کے خلاف اقدام کرنے کااختیار رکھتا ہے ۔جو شخص کسی کا وکیل ہو وہ ارادہ و اختیار کامالک نہیں ہوتا وہ تو بہر صورت خاص اسی حکم کا پابند ہوتا ہے۔ احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اب آئیے ان احادیث کی طرف جو اس مسئلہ میں قاضی کے مختار ہونے کو بتاتی ہے: 4. امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائیں اور عرض کیا :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے دین و اخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے لیکن مجھے یہ بات بھی پسند نہیں ہے کہ مسلمان ہوکر کسی کی ناشکری کروں ( أكره الكفر في الاسلام) یعنی ایک طرف ثابت رضی اللہ عنہ کامیرے ساتھ اچھا سلوک ہے، دوسری طرف میرا اُن کی طرف طبعی رجحان نہیں ہے جس کے باعث میری طرف سے ان کی ناقدری ہوتی ہے۔ اس لیے ہم دونوں میں علیحدگی کرا دی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیاتم اس کو اس کاباغ لوٹا دوگی۔ اُنہوں نے کہا :'ہاں'....