کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 72
نے علیحدگی پر اپنی عدمِ آمادگی کا اظہار کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نےمرد پر دباؤ ڈالتے ہوئے فرمایا کہ جب تک تم اس عورت کی طرح فیصلہ کی ہر دو صورت پر آمادگی کااظہار نہ کرو، یہاں سے ہٹ نہیں سکتے۔ ((كَذَبْتَ وَاللّٰه لَا تَنْفَلِت مِنِّي حَتَّى تُقِرَّ كَمَا أَقَرَّت)) [1]تو اس سے استدلال یوں ہے کہ یہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مرد کو تفریق کے لیے آمادہ ہونے پرمجبور کرنا بالکل بے معنیٰ ہوگا، اگر حکم کوبطور خود طلاق دینے کااختیار حاصل ہو اور وہ مرد کی رضا مندی حاصل کرنے کا مکلف نہ ہو۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے دلائل امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور جوفقہا قاضی کی طرف سے مقرر کیے ہوئے حَکمین کو تفریق اور علیحدگی کا مجاز گردانتے ہیں، ان کی دلیل سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم خود قرآن مجید کی طرف رجوع کریں۔ قرآن کہتا ہے: ﴿وَإِن خِفتُم شِقاقَ بَينِهِما فَابعَثوا حَكَمًا مِن أَهلِهِ وَحَكَمًا مِن أَهلِها إِن يُر‌يدا إِصلـحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَينَهُما إِنَّ اللَّهَ كانَ عَليمًا خَبيرً‌ا ﴿35﴾[2] ''اگر تم کو ان دونوں کے درمیان شدید اختلاف کا اندیشہ ہے تو ایک ایک حَکم مرد و عورت کے خاندان سےبھیجو۔ اگر وہ دونوں اصلاحِ حال چاہیں گے تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردے گا۔ اللہ تمام باتوں سے باخبر اور واقف ہے۔'' اس آیت میں متعدد قرائن ایسے ہیں جو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کی تائید کرتے ہیں: 1. اوّل یہ کہ اس آیت کے مخاطب قضاۃ اور حُکام ہیں۔ سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ ،ضحاک رحمۃ اللہ علیہ اکثر مفسرین اور خود ابوبکر رضی اللہ عنہ جصاص رازی کی یہی رائے ہے اور قرآن کے لب و لہجہ سے بھی اسی کی تاکید ہوتی ہے۔ اب ظاہر ہےکہ قاضی اور حاکم کی حیثیت واعظ اور محض اخلاقی اپیل کرنے والے ناصح کی نہیں ہے بلکہ اس کا منصب یہ ہے کہ جو لوگ وعظ و نصیحت کی زبان سمجھنے پر آمادہ نہ ہوں ،اُن کے لیے قانون اور اختیارات کی تلوار استعمال کی جائے۔لہٰذا اگر قاضی
[1] احکام القرآن للجصاص:2/239 [2] سورة النساء:35