کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 70
کومولانا حافظ صلاح الدین یوسف نے اپنی تفسیر احسن البیان میں یوں لکھا ہے کہ ''خلع بذریعہ طلاق بھی ہوسکتا ہے اور بذریعہ فسخ بھی۔''[1] پیر محمد کرم شاہ الازہری نےلکھا ہے: ''...عورت حاکم وقت کے پاس خلع کا مطالبہ کرے او رحاکم پہلے اُن کی مصالحت کی کوشش کرے گا، اگر کامیابی نہ ہو تو خاوند نے عورت کو مہر میں جو کچھ دیا تھا، حاکم اسےلے کر خاوند کو واپس کردے اور اس کے درمیان تفریق کرا دے یہ خلع ہے۔''[2] خلاصہ کے طور پر عرض ہے کہ طلاق یعنی زوجین کے مابین جدائی کی جوقسمیں قرآن سے ماخوذ و مستنبط ہیں، ان میں ایک تو طلاق ہے، دوسری خلع اور تیسری فسخ نکاح ہے۔ یہ تینوں قسمیں اپنے حوالوں کے ساتھ اوپر مذکور ہوچکیں اور تینوں کی موجودگی میں تفویض طلاق کا قانون ہماری نظر میں خدائی شریعت میں کسی نقص او رکمی کو تسلیم کرنے کےمترداف ہے۔ [ماہنامہ 'معارف' اعظم گڑھ، دارالمصنّفین، بھارت، جنوری 2007ء صفحات 23تا 34 ملخصاً] اب دوسرا مضمون ملاحظہ فرمائیں، اس میں فاضل مضمون نگار نے حنفی ہونے کے باوجود حق خلع کے انکار کے لئے احناف جو دلائل پیش کرتے ہیں، اُن کا جواب بھی دیاہے اور اُنہیں نصوصِ قرآن و حدیث کے خلاف قرار دیا ہے۔ اس کا عنوان بھی فاضل مضمون نگار ہی کا تجویز کردہ ہے۔ یہ مضمون اُن کی کتاب 'جدید فقہی مسائل'سےماخوذ ہے... خُلع میں قاضی او رحَکَم کے اختیارات خلع کے سلسلے میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس میں قاضی اور عدالت کے اختیارات کیاہوں گے؟ کیایہ مکمّل طور پر مرد ہی کے اختیار میں ہے اور اس کی آمادگی اور رضامندی ہی پر طلاق موقوف ہے یااس میں قاضی کو دخیل ہونے کا بھی کچھ حق ہے؟
[1] تفسیر زیر آیت 229 [2] ضیاء القرآن، جلد اوّل ص158، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، گنج بخش روڈ لاہور، طبع اوّل 1402ھ