کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 7
کہ قریبی ہسپتالوں میں گنجائش ختم ہونے پر اُن کے دروازے بند کردیے گئے۔ میدانِ رابعہ کے ارد گرد فون اور انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی تاکہ عالمی میڈیا اس کی بآسانی کوریج نہ کرسکے۔اس علاقے کی سڑکیں اور گلیاں خون آلود ہوگئیں ۔ اسی روز مصر کے دوسرے شہروں سکندریہ وغیرہ میں بھی دسیوں افراد کو فورسز نے ہلاک کردیا۔ فوج کی اس بربریت کی وجہ جنرل سیسی کا بیان اور فوج کو دی جانے والی وہ قانونی قوت ہے جس میں امن وامان قائم کرنے کےلئے وہ ہر قسم کاوحشیانہ اقدام کرنے کی مجاز ہے۔ وحشت وبربریت کا سامنا کرنے اوراس قدر قربانیوں کے باوجود اسلامی حکومت کے حامی اسی میدانِ شہادت میں ڈٹے رہے۔سو 11/ اگست کوفوج نے ایک باردھرنے کو ختم کرنے کی دھمکی دی اور اس کے لئے پھر پوری قوت استعمال کرنے کا اعلان بھی کیا تاہم یہ منصوبہ مؤخر کردیا گیا۔ جس وقت اہل پاکستان 14/اگست کو یوم آزادی منارہے تھے، اُسی دن بعد نمازِ عصر مصری عوام پر تیسری بار بدترین قتل وغارت مسلط کردی گئی۔14/اگست کو سیکورٹی فورسز نے اسی مقام پر کھلی بربریت کے نتیجے میں کم ازکم 600/افراد کو شہید کردیا جبکہ ساڑھے سات ہزار لوگ شدید زخمی ہوگئے۔اخوان المسلمین کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق شہدا کی تعداد 2ہزار سے بھی متجاوز ہے۔بی بی سی کے نامہ نگار جیریمی بوئن کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے مرکزی احتجاجی کیمپ کے پاس واقع مسجد ایمان میں خود 202 لاشیں دیکھی ہیں جن میں اکثر ہلاک شدگان کے نام سرکاری اعداد وشمار میں شامل نہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ان میں اکثریت ان لاشوں کی ہے جو اتنی جلی ہوئی ہیں کہ اُن کی شناخت ممکن نہیں۔اسی روز دوسرے صوبوں میں بھی قتل و تشدد کے نتیجے میں 200 سے زائد افراد ہلاک کردیے گئے۔ زخمی یا شہید ہونے والوں کے یہ اعداد وشمار وہ ہیں جو ہسپتالوں کی انتظامیہ نے شمار کئے، جبکہ درحقیقت مظلوموں کی یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ فوجی غاصبوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اخوان المسلمین کے سربراہ ومرشد ڈاکٹر محمد بدیع کو بھی حراست میں لے لیا، اُن پر مظاہرین کو احتجاج پر اکسانے کا الزام عائد کیا گیا جبکہ معمر اخوانی مرشد کے بیٹے بھی عسکری فورسز کی ان پرتشدد کاروائیوں میں شہیدہوچکے ہیں۔ اس سے قبل اخوان کے سیاسی ونگ 'جسٹس اینڈ فریڈم پارٹی' کے صدرمحمدسعد کتاتنی بھی پابندِ سلاسل کردیے گئے۔ اخوان کے مُرشدِ عام عموماً خطابِِعام نہیں کرتے، لیکن ان پرآشوب حالات