کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 69
میں خلع ہے او رجب مرد کو عورت کی طرف سے تکلیف ہو تو شارع نے اسے طلاق کا اختیار دیا ہے۔''[1] سورۃ البقرۃ کی آیت 229 [2]میں جس صورتِ طلاق کا ذکر ہے، اسے اصطلاحِ شریعت میں خلع کہتے ہیں، طلاق اور خلع میں فرق یہ ہے کہ جب طلاق کا مطالبہ عورت کی طرف سے ہوا ہو اور مرد اس مطالبہ کو پورا کردے تو اسے خلع کہتے ہیں او رجب مرد محض اپنی خواہش سے عورت کو اپنے سے جدا کرنا چاہے تو اسے طلاق کہتے ہیں۔ مذکورہ بالا قرآنی آیت کی تفہیم میں جمیلہ بنتِ عبداللہ اور ثابت بن قیس کا واقعہ ہماری رہنمائی کرتا ہےجو صحیح احادیث میں آیا ہے، اس واقعہ میں مذکورہ عورت کی خواہش پر مذکورہ مرد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر طلاق دی ، خلع کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ اس آیت میں ایک چیز قابل توجہ ہے، آیت کے ابتدائی حصے میں : ﴿ وَلا يَحِلُّ لَكُم أَن تَأخُذوا﴾ آیا ہے، اس میں مخاطب کی ضمیر آتی ہے اور مراد شوہر ہیں جبکہ ﴿ فَاِنْ خِفْتُمْ﴾میں بھی یہی ضمیر آئی ہے مگر اس سےشوہر مراد نہیں ہیں بلکہ حکام عدالت یا بحیثیتِ مجموعی مسلمان مراد ہیں۔نحوی حضرات اپنی اصطلاح میں اسے 'انتشار ضمائر' کہتے ہیں اوراسے جائز و روا رکھتے ہیں، قرآن میں اس طرح کی اور مثالیں بھی موجود ہیں۔ آیت کو بحیثیتِ مجموعی دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں خلع کی دو قسمیں مذکور ہوئی ہیں، قسم اوّل میں اس خلع کا بیان ہے جو گھر کے اندر رہتے ہوئے خوش اُسلوبی سےطےہوجائے اور قسم ثانی میں اس خلع کاجس کے لئے عورت کو قاضی کی عدالت میں جانا پڑے، بہر دو صورت خلع مطالبۂ طلاق کا نام ہے، خواہ وہ شوہر دے یا حاکم عدالت میں ان میں تفریق کرائے، اسی بات
[1] بدایۃ المجتہد: 2/68، مطبوعہ مصر 1379ھ [2] ﴿ الطَّلـقُ مَرَّ‌تانِ فَإِمساكٌ بِمَعر‌وفٍ أَو تَسر‌يحٌ بِإِحسـنٍ وَلا يَحِلُّ لَكُم أَن تَأخُذوا مِمّا ءاتَيتُموهُنَّ شَيـًٔا إِلّا أَن يَخافا أَلّا يُقيما حُدودَ اللَّهِ فَإِن خِفتُم أَلّا يُقيما حُدودَ اللَّهِ فَلا جُناحَ عَلَيهِما فيمَا افتَدَت بِهِ تِلكَ حُدودُ اللَّهِ فَلا تَعتَدوها وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّهِ فَأُولـئِكَ هُمُ الظّـلِمونَ ﴿229﴾... سورة البقرة