کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 68
شخص خود اپنے آپ سے نکاح کرلے، گویا خود ہی ناکح ہو اور خود ہی منکوحہ ۔ ذرا سوچئے کہ تفویض طلاق کی صورت حال کس قدر مضحکہ خیز ہے، کوئی ہے جو اس پر غور کرے...؟ 'عقدہ نکاح' کی نسبت مرد کے تعلق سے ایک آیت پیشتر بھی مذکور ہے، اپنے موقف کی تائید میں اسے بھی پیش کئے دیتا ہوں۔ ارشادِ پاک ہے: ﴿وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّى يَبلُغَ الكِتـبُ أَجَلَهُ...235﴾[1] ''اور معاہدۂ نکاح کو پختہ نہ کرو جب تک بیوہ عورتوں کی عدت مکمل نہ ہولے۔'' تفویض طلاق کی بابت کچھ حقائق منتخب مفسرین کے حوالہ سے بھی ملاحظہ ہوں: مفتی احمدیار خاں نعیمی رقم طراز ہیں: ''عورتوں کو طلاق کا حق دینا گویا دیوانہ کے ہاتھ میں تلوار دینا ہے، پھر دن بھر میں پانچ پانچ طلاقیں ہوں گی، دیکھ لو آج امریکہ اور انگلینڈ میں طلاقوں کی کیسی بھرمار ہے کہ وہ لوگ چیخ پڑے ہیں۔''[2] مزید فرماتے ہیں: ''طلاق کا حق صرف مرد ہی کو ہے، نہ کہ عورت کو''[3] [اس عبارت میں 'صرف' کا لفظ قابل توجہ ہے۔] اسلام کا قانون خلع تفویض طلاق کو سمجھنے کے لئے خلع کے قانون کا سمجھنا بہت ضروری ہے ، ہمارےنزدیک خلع کا قانون اپنی فطرت اور اصل میں تفویض طلاق کے قانون کا نقیض ہے۔ علامہ ابن رشد مالکی لکھتے ہیں: ''خلع کا فلسفہ یہ ہے کہ خلع عورت کے اختیار میں اس لئے رکھا گیا ہے کہ مرد کے اختیار میں طلاق ہے، چنانچہ جب عورت کو مرد کی طرف سے کوئی تکلیف ہو تو اس کے اختیار
[1] البقرۃ :235 [2] اشرف التفاسیر المعروف بہ تفسیر نعیمی، جلد4/625، مکتبہ اسلامیہ، مفتی احمد یارخاں روڈ، گجرات [3] تفسیر نعیمی: 2/ ص568...تفسیرزیر آیت سورۃ البقرۃ:237