کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 67
میں تسلیم کرلیا گیا ہے ۔تفویض کے بعد طلاق کا حق صرف شوہر کے ہاتھ میں نہیں بلکہ بیوی کے ہاتھ میں بھی رہتا ہے۔ اُن دونوں میں سے جو چاہے وہ اسے بغیر کسی رکاوٹ کے استعمال کرسکتا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی طلاق کا ذکر آیا ہے، اس کی نسبت ہمیشہ مرد کی طرف کی گئی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ طلاق دینے کا اختیار صرف مرد کو حاصل ہے مگر ہمارے بعض دانشوروں کو یہ امر خداوندی پسند نہ آیا یا یوں کہیے کہ ان کی سمجھ میں نہ آیا، اس لئے وہ اس امر کے مخالف ہوگئے او راسے عورتوں پر ظلم سے تعبیر کرنے لگے۔[1] ہم سمجھتے ہیں کہ مرد کے حق طلاق پرمعترض ہونے یا اس حق کو عورتوں میں منتقل کرنے [2]کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ (نعوذ باللہ ) قرآن مجید میں شاید کوئی غلطی ہوگئی ہے جسے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نکاح کے ذریعے میاں بیوی ایک دوسرے کے زوج قرار پاتے ہیں ، اس زوجیت کے رشتے میں مرد نا کح ہوتا ہے اور عورت منکوحہ، ایسا کبھی نہیں ِہوتا کہ عورت نا کح ہو اور مرد منکوحہ، اسی لئے تو ﴿بِيَدِهِ عُقدَةُ النِّكاحِ ﴾[3] میں گرۂ نکاح کا جس کے ہاتھ میں ہونا بیان ہوا ہے ، وہ مرد ہے نہ کہ عورت۔ اس لئے کہ بيده میں ه ضمیر مذکر کی ہے، اگر ضمیر مؤنث کی ہوتی تو گرہِ نکاح کو عورت کےہاتھ میں سمجھا جاتا؛ اس طرح عورت ناکح بھی ہوتی اور اس گرہ کو کھولنے کی مجاز بھی مگر شریعت نے ایسا نہیں کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام نہیں چاہتا کہ گرہِ نکاح عورت کے ہاتھ میں ہو، جب کہ تفویض طلاق میں گرہ نکاح عورت کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے اور وہ حق طلاق کو خود اپنے ہی خلاف استعمال کرکے اپنے شوہر سے الگ ہوجاتی ہے گویا خود ہی طالقہ ہوتی ہے اور خود ہی مطلقہ بھی، یعنی فاعلہ بھی خود اور مفعولہ بھی خود، یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ کوئی
[1] فاضل مقالہ نگار کا اشارہ غلام احمد پرویز جیسے منکرین حدیث کی طرف ہے جو حق طلاق کو صرف مرد کے ساتھ خاص کرنے کو عورت پر ظلم سے تعبیر کرتے ہیں۔(مطالب الفرقان:3/392تا394، طبع طلوعِ اسلام لاہور 1993ء) (ص۔ی) [2] جیسا کہ علماے احناف اس کے قائل ہیں۔ (ص۔ی) [3] البقرۃ :237