کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 66
شوہر کی طرف سے دی جانے والی طلاق (جو کہ یک طرفہ ہوتی ہے) کو فقط طلاق کہہ دیتے ہیں، بیوی اگر اپنے شوہر سےعلاحدگی کا مطالبہ کرے اور اس کے مطالبہ پرشوہر اگر اسے چھوڑ دے تو ایسی طلاق کو 'خلع' کہتے ہیں۔اگر خلع کا مطالبہ، عدالت میں دائر کیا جائے جس کے نتیجے میں علاحدگی واقع ہو تو ایسی علاحدگی کو 'فسخ نکاح' کہتے ہیں، مذکورہ صورتوں میں کوئی صورت بھی ایسی نہیں کہ جس میں عورت حق طلاق میں خود مختار نظر آتی ہو۔ عورت کا عدالت میں جاکر طلاق کا مطالبہ کرنا بجائے خود اس امر کی دلیل ہے کہ شریعت نے اسے طلاق دینے یا اسے اپنے اوپر وارد کرنے کے حق سے محروم رکھا ہے۔ طلاق اسے یا تو اُس کا شوہر دے یا پھر ایمرجنسی کے حالات میں حاکم عدالت اپنے شرعی اختیار سے تفریق کرا دے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت وہ واحد مقام ہے کہ جہاں عورت کو 'حق طلاق' استعمال کرنے کی اجازت دی جاسکتی تھی اور اس مقام پر اس کے برسر عدالت اقدامِ خلع کو طلاق کا بدل قرار دیا جاسکتاتھا مگر شریعت نے انصاف کی جگہ پر (اسلامی عدالت میں) بھی طلاق کا حق بہرحال عورت کو نہیں دیا کیوں کہ ﴿وَلِلرِّ‌جالِ عَلَيهِنَّ دَرَ‌جَةٌ﴾[1] ''اور مردوں کو ان پر ایک فضیلت ہے۔'' میں مرد کو ایک گونہ فضیلت برائے ضرورت اسی حق طلاق میں دی گئی ہے، خدا کی طرف سے بخشی گئی یہ 'فضیلت' مردوں کونہیں، شوہروں کو حاصل ہے اور شوہر چونکہ ایک رشتے کا نام ہے اور رشتے کی فضیلت یہی ہے کہ وہ اس حق کو استعمال کرنے کا مجاز بنایا جائے۔ ہمارے خیال میں اگر کوئی شوہر اپنا یہ حق، اپنی زوجہ کو تفویض کرتا ہے تو دراصل وہ اللہ کی شریعت میں تبدیلی کا جرم کرتا ہے۔ شریعت نے اسے یہ حق ہرگز نہیں دیا کہ وہ اپنا یہ حق زوجہ کو تفویض کر دے اور زوجہ جب چاہے یہ حق استعمال کرکے اپنے خاوند سے الگ ہوجائے، اگر یہ عمل شریعت کی رو سے درست ہوتا تو شریعت طلاق کے عمل کو ہی دو طرفہ کردیتی، پھر ایسا کرنے کی صورت میں خلع اور فسخ نکاح کی بھی حاجت نہ رہتی او رطلاق بہت آسان ہوجاتی۔ لیکن افسوس کہ ہماری کتبِ فقہ میں تفویض طلاق کے عنوان سے یہ حق، بیویوں کے حق
[1] البقرۃ :228