کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 65
مذکورہ گزارشات بھی حق الیقین سے بڑھ کر عین الیقین کا درجہ حاصل کرلیں۔ اُن میں ایک مثال ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج، استاذ الفقہ وا لتفسیر جامعہ کراچی کی ہے جو غالباً حنفی بریلوی ہیں اور دوسری مثال مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، فاضل دیو بند، صدر مدرّس دارالعلوم سبیل السلام (حیدر آباد دکن) کی ہے جو حنفی دیوبندی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان دونوں حضرات کو مسئلہ زیر بحث میں تقلیدی جمود سے نکل کر براہِ راست قرآن و حدیث کی تعلیمات پر غور کرنےکی توفیق عطا فرمائی تو وہ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے کہ عورت کو طلاق کا حق تفویض کردینا حکمِ الٰہی کی خلاف ورزی ہے اور عورت کے حقِ خلع کا انکار قرآن و حدیث کی واضح تعلیمات سے انحراف ہے۔ لیجئے ! دونوں اَفاضل کے مضامین کی تلخیص ملاحظہ فرمائیں۔ پہلے ڈاکٹر شکیل اوج صاحب کے مضمون کا ضروری حصہ، جو 'معارف' اعظم گڑھ میں شائع ہوا۔ اس کا عنوان بھی صاحب مضمون ہی کا تجویز کردہ ہے۔ اس کی تلخیص اس لئے کی گئی ہے کہ اس میں وہ دلائل بھی تھے جو ہمارے مضمون میں بیان ہوچکے ہیں، اس لیے تکرار سے بچنے کے لئے ان کو حذف کرناضروری تھا، اسی طرح بعض مفسرین کے اقتباسات بھی حذف کردیے گئے ہیں۔ تاہم ان کے اصل دلائل او راُن کاموقف اگلے صفحات میں ان ہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں: (1)تفویضِ طلاق ... ایک اہم عائلی مسئلہ از ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج[1] میاں بیوی کے مابین قائم ہونے والے رشتہ کو نکاح کہا جاتا ہے اور اس رشتے کے ٹوٹ جانے کو طلاق، نکاح میں دو طرفہ رضا مندی ضروری ہوتی ہے مگر طلاق میں دو طرفہ رضا مندی ضروری نہیں ہوتی، گو بعض صورتوں میں ایسا بھی ہوتا ہےکہ طلاق بھی دو طرفہ رضا مندی سے ہی وجود پذیر ہوتی ہے، فقہی اصطلاح میں ایسی طلاق کو 'طلاقِ مبارات' کہتے ہیں۔[2]
[1] استاذ الفقہ والتفسیر، شعبہ علوم اسلامی، جامعہ کراچی [2] مجموعہ قوانین اسلام: 2 /602، از جسٹس تنزیل الرحمٰن، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد