کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 63
کردیا جائے۔ یعنی اگرمیاں بیوی کو خطرہ ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کےحقوق پورے نہیں کرسکتے تو ایسی صورت میں خلع کی اجازت ہے۔''[1] سبحان اللہ ! کیا خوب فلسفہ تراشا ہے۔ اسلام کی تعلیم میں تو بلا شبہ نہایت اعتدال اور توازن ہے کہ اس نےمرد کو طلاق کا حق دیا ہے جس کے ذریعے سے وہ ناپسندیدہ بیوی سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ اور اگر ایسے ہی حالات عورت کو پیش آجائیں اور وہ ناپسندیدہ شوہر سے نجات حاصل کرنا چاہے تو وہ حق خلع کےذریعہ سے نجات حاصل کرسکتی ہے۔ یہ تو یقیناً اعتدال اور توازن کی بات ہے جس میں اسلام دیگر ادیان و مذاہب میں ممتاز ہے۔ لیکن جب آپ مرد کو تو مطلقاً یہ حق دے رہے ہیں کہ وہ جب چاہے عورت کو طلاق دے سکتا ہے۔ کیا طلاق دیتے وقت مرد عورت کی رضا مندی حاصل کرنے کا پابند ہے؟ اور اگر عورت رضامند نہ ہو تو مرد طلاق نہیں دے سکتا۔کیاواقعی آپ کےنزدیک ایسا ہے؟ اور اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو پھر یہ کہنا: ''جیسےباہمی رضا مندی سے عقدِ نکاح کیا گیا تھا ایسے ہی باہمی رضا مندی سے اسے ختم کردیا جائے۔'' کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ اور اگر اس عبارت کاتعلق صرف عورت کے حق خلع سے ہے کہ اس میں دونوں کی رضا مندی ضروری ہے تو پھر اعتدال تو نہ رہا۔ عورت کےحقِ طلاق کو تو مقید کردیا خاوند کی رضا مندی کےساتھ، وہ رضا مند نہ ہو تو عورت کےلئے گلو خلاصی کی کوئی صورت ہی نہیں۔ اس کو کون اعتدال کی تعلیم تسلیم کرے گا جس کو آپ اعتدال باور کرا رہے ہیں۔ اعتدال تو اسلام کے بتلائے ہوئےطریقِ خلع ہی میں ہےکہ دونوں ہی (مرد اور عورت) کے لئے یہ راستہ کھلا ہوا ہے کہ مرد علیحدگی چاہتا ہے تو اس کے پاس طلاق کا حق ہے ، عورت علیحدگی چاہتی ہے تو اس کے پاس خلع کا حق ہے ، خاوند اگر اس کا یہ حق تسلیم نہ کرے تو عدالت عورت کو اس کا یہ حق دلوائے گی۔ لیکن اگر آپ مرد کے حقِ طلاق کے لئے تو رضا مندی ضروری قرار نہیں دیتے لیکن عورت کے خلع کے لئے اس کو ضروری قرار دیتے ہیں تو آپ نے اپنے فقہی جمود کا ثبوت تو یقیناً
[1] تفسیر 'روح البیان':1/588، ناشر:جامعۃ البنوریہ العالمیہ، کراچی