کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 62
''مسئلہ: عدالت کی طرف سے شوہر کی رضا مندی کے بغیر جو یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کر دی جاتی ہے وہ شرعاً معتبر نہیں۔ اس صورت میں اس عورت کا کسی اور مرد سے نکاح کرنا حرام اور بدکاری ہو گا۔''[1] بتلائیے...! یہ حق خلع کا اثبات ہے جو اللہ رسول نے عورت کو دیا ہے یا اس کا صاف انکار ہے۔خاوند کی رضا مندی کےبغیر اگر عورت اپنا یہ حق وصول نہیں کرسکتی، تو پھر خاوند کی ہٹ دھرمی کی صورت میں آخر وہ اپنا یہ حق کیسے وصول کرے گی؟علماے احناف آخر اس کی بھی تو وضاحت فرمائیں۔ پھر اس حنفی طریق خلع پر اجماع کا دعویٰ اور چند سطروں کے بعد ہی اسے جمہور فقہا کا فیصلہ قرار دینا؟ عجیب تضادِ فکر ہے۔ اوّل تو اس کو جمہور فقہا کا متفقہ فیصلہ بتلانا ہی غلط ہے۔ اگر جمہور کی رائے تسلیم کر بھی لی جائے، تو اجماع تو پھر بھی نہ ہوا کیونکہ اکثریت کی رائے کو اجماع تو نہیں کہا جاتا۔ دراصل اپنی بات کو مؤکد کرنےکے لئے یوں ہی اس کو 'جمہور کی رائے' کہہ دیا جاتا ہے یا اس پر 'اجماع' کا دعویٰ کردیا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہو تا۔ اسی لئے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: "من ادعى الإجماع فهو كاذب"[2] ''جو کسی مسئلے کی بابت اجماع کادعویٰ کرے، وہ جھوٹا ہے۔'' زیربحث مسئلہ بھی اس کی ایک واضح مثال ہے۔ حنفی طریق خلع نہ جمہور کا متفقہ فیصلہ ہے اور نہ اس پر اجماع ہے۔بھلا جو مسئلہ (حنفی طریق خلع) قرآن و حدیث کی نصوص صریحہ کے خلاف ہے، اسے جمہور کس طرح اختیار کرسکتے ہیں؟ ...یا اس پر اجماع کس طرح ہوسکتا ہے؟ صاحب'روح البیان' مزید فرماتے ہیں: ''اسلام کی یہ کیسی معتدل تعلیم ہے کہ حتیٰ الوسع نہ کسی کی حق تلفی ہو نہ دل شکنی ہو۔ جیسےباہمی رضا مندی سے عقدِ نکاح کیاگیا تھا، ایسے ہی باہمی رضا مندی سےاسے ختم
[1] تفسیر روح البیان: 1/ 590 [2] الاعتصام للشاطبی 1/274