کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 61
ایک اور حنفی مفسر کا حق خلع کا انکار 2. تفسیر 'روح البیان'کے حنفی مفسر'آیتِ خلع' کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ''خلع میاں بیوی کا آپس کا معاملہ ہے، اس میں عدالت یا تیسرا کوئی شخص مشورہ تو دے سکتا ہے ، جبر نہیں کرسکتا، نہ عدالت کے پاس از خود یہ اختیار ہے کہ وہ شوہر کی رضا مندی کے بغیر عورت کے حق میں یکطرفہ (ون سائیڈ) خلع کا فیصلہ کردے۔اگر عدالت ایسا کوئی فیصلہ کرتی ہے تو وہ قرآن و حدیث او راجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے لوگوں کے نزدیک ناقابل عمل ہوگا اور اللہ کے نزدیک ناقابل قبول رہے گا۔ جس طرح نکاح کی قبولیت کا صرف شوہر کو یا اس کے بارے میں مقرر کردہ وکیل ہی کو حق حاصل ہے اسی طرح خلع کی پیش کش کو قبول کرکے طلاق دینے کا حق بھی شوہر ہی کو حاصل ہے۔لہٰذا جس طرح بیوی رقم کے بدلے طلاق حاصل کرنےپر راضی ہے اسی طرح شوہر کا بھی رقم قبول کرکے طلاق دینے پر راضی ہونا ضروری ہے۔ جمہور فقہا کا اتفاق ہےکہ خلع باہمی رضا مندی کےساتھ جائز ہے۔'' تبصرہ: ان صاحب نے بھی حنفی طریق خلع کو قرآن و حدیث کا بیان کردہ خلع قرار دینے کی جسارت کی ہے۔ حالانکہ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔حنفی طریق خلع دراصل حق خلع کا انکار ہے کیونکہ ان کےنزدیک اس میں دونوں کی رضا مندی ضروری ہے۔ اگر خاوند عورت کے مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہ کرے تو عورت خلع حاصل کر ہی نہیں سکتی۔ خاوند کی ہٹ دھرمی کا حل قرآن و حدیث میں عدالت کو قرار دیا گیا ہے لیکن حنفی فقہ کہتی ہے کہ عدالت کو قطعاً یہ حق حاصل نہیں ۔ عدالت اگر مداخلت کرکے عورت کو یہ حق دلائے گی تو عورت کو طلاق نہیں ہوگی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عورت خاوند کی ہٹ دھرمی کی صورت میں عدالت سے خلع حاصل کرنے کے بعد عدت گزار کر کسی او رجگہ نکاح کرے گی تواحناف کے نزدیک یہ نکاح عنداللہ ناقابل قبول ہوگا، جب ایسا ہے تو پھر وہ نئے میاں بیوی تو ساری عمر زنا کاری ہی کے مرتکب رہیں گے۔ان کی یہ دیدہ دلیری اور قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے انحراف انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔ تفسیر روح البیان کے مؤلف لکھتے ہیں: