کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 60
تو لیجئے انہی کے الفاظ میں ان کا موقف پڑھ لیجئے۔ 1. مولانا تقی عثمانی پہلے عنوان قائم کرتے ہیں:''کیا خلع عورت کا حق ہے؟'' مولانا موصوف نے اس بحث کا یہ عنوان مقرر کیا ہے ۔ اس سوالیہ عنوان ہی سے اس امر کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ اُن کے نزدیک عورت کو حق خلع حاصل ہی نہیں ہے۔ پھر فرماتے ہیں: ''ہمارے زمانے میں خلع کے بارے میں ایک مسئلہ عصر حاضر کے متجد دین نے پیدا کردیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ تمام علماے اُمت کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ خلع ایک ایسا معاملہ ہے جس میں تراضئ طرفین ضروری ہے اور کوئی فریق دوسرےکو مجبور نہیں کرسکتا۔لیکن ان متجددین نے یہ دعویٰ کیا کہ خلع عورت کا ایک حق ہے جسےوہ شوہر کی مرضی کے بغیر بھی عدالت سے وصول کرسکتی ہے، یہاں تک کہ پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے عدالتِ عالیہ یعنی سپریم کورٹ نے اس کےمطابق فیصلہ دے دیا اور اب تمام عدالتوں میں اسی فیصلے پر بطورِ قانون عمل ہورہا ہے حالانکہ یہ فیصلہ قرآن وسنت کےدلائل اور جمہور کے متفقہ فیصلے کے خلاف ہے۔''[1] تبصرہ: اپنی رائے کو، جو تقلیدی جمود پر مبنی ہے، قرآن و سنت کے دلائل او رجمہور کے متفقہ فیصلے کے مطابق قرار دینا یکسر غلط اور خلافِ واقعہ ہے حالانکہ قرآن و سنت کے مطابق خلع کی اصل صورت وہ ہے جس کی مختصر تفصیل ہم نے پیش کی ہے۔ خلع کی اس صورت کو متجددین کی رائے بتلانا اور قرآن و سنّت کی نصوصِ صریحہ کی بے جا تاویل کرکے ان سے اپنے تقلیدی موقف کا اثبات ایک تحکمانہ انداز اور قرآن و حدیث میں بیان کردہ حق خلع کا صریح انکار ہے۔اَعاذنا اللّٰه منه مضمون طویل ہوگیا ہے، ورنہ ہم ان کی ان تاویلاتِ باطلہ کی حقیقت بھی واضح کرتے جو اُنہوں نے'درس ترمذی'میں بیان کرکے تقلیدی جمود کا ثبوت دیا ہے۔ ضرورت پڑی تو ان شاء اللہ ان پر بھی گفتگو ہوگی۔ بعون اللّٰه وتوفيقه
[1] درسِ ترمذی:3/497