کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 6
طرف سے تشدد اورقوت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے سیکڑوں مصری مسلمانوں پر کھلے عام فائرنگ کرکے اُنہیں منتشر کرنے کی کوشش کی گئی، ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی کردیے گئے۔ وہ سیکورٹی فورسز جو فرزندانِ وطن کو غیروں سے بچانے کے لئے بھرتی کی جاتی ہیں، اُن کی گولیوں کا نشانہ خود وہ مظلوم یا معصوم عوام بنتے رہے، جن کا جرم اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے جمہوری اوراسلامی حق کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مصر میں مخصوص اور محدود حلقوں کی طرف سے جاری 'تحریک تمرّد(بغاوت)' کے اگلے روز 4 جولائی کو صدر کے حامی میدان رابعہ عدویہ اور نہضہ سکوائر میں بڑی تعداد میں جمع ہونا شروع ہوئے۔ جب عالمی میڈیا تحریر سکوائر میں سیکولر افراد کا اجتماع دکھا رہا تھا، اسی وقت مصر میں درجنوں مقام پر مرسی کے حامی اُس سے کہیں بڑی تعداد میں حمایتی مظاہرے کررہے تھے۔انہی دنوں قاہرہ میں مرسی کے 32 لاکھ حامیوں نے چار مختلف مقامات پر ملین مارچ کا انعقاد کرکے احتجاج کی ایک نئی تاریخ رقم کردی لیکن یہ احتجاج میڈیا کے من پسند کیمروں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے اور ان کو انسانوں کی بجائے کسی حقیر مخلوق کا اکٹھ سمجھا گیا۔
بغاوت کے پانچ دن بعد آٹھ جولائی کو صدارتی گارڈز کے بیرکوں کے قریب سیکورٹی فورسز نے خوف وہراس پیدا کرنے کے لئے مرسی کے حامیوں پر کھلی گولی چلا دی جس کے نتیجے میں مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق کم ازکم 51/افراد شہید اور 435 زخمی ہوگئے۔برطانوی جریدے'دی گارڈین' کی رپورٹ کے مطابق احتجاج کرنے والوں پر یہ وحشیانہ فائرنگ رمضان سے ایک روزقبل،نمازِ فجر کے دوران صبح 3:25منٹ پر کی گئی جب کہ شہید ہونے والے تمام افراد بالکل غیرمسلح تھے، اُن کو ناف سے اوپر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ان میں سے اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کی تھی، جن میں جامعہ ازہر کےپروفیسرزاور کئی ڈاکٹر وانجنیئر شامل تھے۔ 'دی گارڈین' کی رپورٹ کے مطابق فوجیوں نے کئی نمازیوں پر کھلا تشدد بھی کیا، اور گرد ونواح کی سڑکوں کو خون سے رنگ دیا۔
دوسری مرتبہ 27 جولائی کو مسجد رابعہ عدویہ میں اخوان کے احتجاج کرنے والے مظاہرین پر فوجی کاروائی کے نتیجے میں 70 سے زیادہ افراد کو شہید کردیا گیا۔نوائے وقت کی رپورٹ کے مطابق اخوان المسلمین کے دھرنے پر سکیورٹی فورسز کی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں 120/ افراد جاں بحق ہوئے اور 4500/افراد زخمی ہوگئے۔ ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی