کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 59
ہم نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ علماے احناف عورت کے حقِ خلع کو تسلیم نہیں کرتے تو اس کے بارے میں ان کا یہ غیر منطقی موقف ہی اس کی بنیاد ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ خاوند اگر عورت کے مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہیں کرتا تو عدالت کو قطعاً یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر طلاق کی ڈگری جاری کردے، جیسا کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد ہماری عدالتیں اس طرح کے فیصلے کررہی ہیں۔ علماے احناف کہتے ہیں کہ عدالتوں کے یہ فیصلے غلط ہیں اور اس طرح عورت کو طلاق نہیں ہوتی۔ حالانکہ عدالت کا یہ حق قرآنِ کریم کی آیت اور حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے واقعے سے واضح ہے جس کی مختصر تفصیل ابھی گزری اور اس کے بغیر گھریلو نزاعات کا کوئی دوسرا حل ہےہی نہیں۔ اگر آپ اس منطقی اور فطری طریق کونہیں مانتے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ آپ شریعت کے عطا کردہ عورت کےحقِ خلع کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ آپ ذرا تصور کیجئے، ایک عورت خاوند کے رویے سے سخت نالاں ہے اور وہ اس سے ہر صورت خلاصی چاہتی ہے، وہ طلاق کا مطالبہ کرتی ہے، خاوند نےاُس کو جو کچھ (حق مہر وغیرہ) دیا ہے، وہ اُس کو واپس کرنے کی پیش کش کرتی ہے۔ لیکن وہ کسی صورت طلاق دینے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا۔ اب بتلائیے کہ اگر طلاق خاوند کی رضا مندی کے بغیرنہیں ہوسکتی جیسا کہ علماے احناف کہتے ہیں، تو عورت کو اس کا حق خلع کون دلائے گا؟ آپ کہتے ہیں ، عدالت مداخلت نہیں کرسکتی، اور خاوند کی رضا مندی کے بغیر علیحدگی ممکن ہی نہیں ہے، تو اس صورت کا حل کیا ہے؟ او رکیا یہ حق خلع کو تسلیم کرنا ہے...؟ یہ تو اللہ کے عطا کردہ حق خلع کا صاف انکار ہے۔ خاوند کی ہٹ دھرمی ہی کا تو علاج عورت کے حق خلع کی صورت میں بتلایا گیا ہے جو صرف عدالت ہی عورت کو دلوا سکتی ہے۔ عدالت کو اگر یہ حق نہیں ہے اور خاوند کسی صورت طلاق دینے کے لئے تیار نہیں ہے تو عورت کو اُس کا یہ حق کس طرح ملے گا جو اللہ نے اسے عطا کیا ہے؟ حقِ خلع کے بارے میں علماے احناف کی تصریحات اگر کوئی کہے کہ علماے احناف کا یہ موقف نہیں ہوسکتا جو اُن کی طرف منسوب کیا جارہا ہے