کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 58
پر پہنچے کہ عورت کا مطالبۂ علیحدگی بالکل جائز ہے تو وہ مرد کو طلاق دینے کا حکم دے گا، اگر وہ پھر بھی طلاق نہ دے تو عدالت یا پنچایت فسخ نکاح کا حکم جاری کرے گی جو مرد کے طلاق کے قائم مقام ہوجائے گا او رعورت عدتِ خلع (ایک حیض) گزارنے کے بعد کسی دوسری جگہ شادی کرنے کی مجاز ہوگی۔یہ ہے خلع کا وہ طریقہ جو قرآن کریم کی آیت:﴿فَإِن خِفتُم أَلّا يُقيما حُدودَ اللَّهِ...229﴾[1] " اور حدیث میں مذکور واقعہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ ﴿فَإِن خِفتُم﴾ (پس اگر تم ڈرو...) میں خطاب خاندان کے اولیا(ذمّے داران) معاشرے کے معزز افراد یا حکومت کے افسرانِ مجاز(عدالتی حُکام) سے ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان پیدا ہونے والا نزاع، اُن کی آپس کی بات چیت سے ختم نہ ہوسکے تو تم مداخلت کرکے اس کو حل کرو اور عورت سے فدیہ (حق مہر) لے کر مرد کو دو اور اس سے طلاق دلواؤ، اگر وہ طلاق نہ دے تو تم فسخ نکاح کا آرڈر جاری کرکے اُن کے درمیان علیحدگی کروا دو۔ حدیث سے بھی اسی بات کا اثبات ہوتا ہے، حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ خوش شکل نہ تھے جب کہ اُن کی بیوی خوبرو تھی، اُنہوں نے بارگاہِ رسالت میں آکر نہایت مناسب الفاظ میں اس بات کو بیان کیا او رکہا کہ میں ثابت بن قیس کے دین و اخلاق کے بارے میں تو اُن کو معتوب نہیں کرتی لیکن ان کے ساتھ رہنے میں مجھے ناشکری کا اندیشہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر صورتِ حال کا اندازہ کرلیا او راس سے پوچھا: کیا تو ثابت بن قیس کو وہ باغ واپس کرنے پر آمادہ ہے جو اس نے تجھے (حق مہر میں) دیا تھا؟ اس نے کہا! ہاں۔ آپ نے ثابت بن قیس کو حکم دیا: اس سے اپنا باغ لے لو اور اس کو طلاق دے دو، چنانچہ اُنہوں نے طلاق دے دی۔ (یہ واقعہ احادیث کی ساری کتابوں میں موجود ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کو طلاق کا حکم دینا ایک حاکم کے طور پر تھا اور ظاہر بات ہے کہ خاندانی معاملات و نزاعات میں عدالت یا پنچائیت کی مداخلت ناگزیر ہے، اگر عدالت کو یہ حق نہیں دیا جائے گا یا اُس کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جائے گا تو پھر ان نزاعات کا حل آخر کس طرح نکالا جائے گا؟
[1] سورة البقر ة :229