کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 57
فقہ واجتہاد صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ قسط نمبر 2/آخری عورت کو طلاق کا حق تفویض کرنا ،شریعت میں تبدیلی ہے خلع کے بارے میں ایک ضروری وضاحت گذشتہ شمارہ محدث (نمبر361) میں میرا سابقہ مضمون پڑھ کر کسی کے ذہن میں یہ اشکال آسکتا ہے کہ علماے احناف تو خلع کا ذکر بھی کرتے ہیں او راس کا اثبات بھی، پھر ان کی بابت یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ خلع کا انکار کرتے ہیں؟ یہ بات ایک حد تک صحیح ہے کہ وہ ظاہری طور پر خلع کا اقرار کرتے ہیں لیکن وہ اس کو اس طرح ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں جس طرح شریعت نے یہ حق عورت کو دیا ہے۔ اس لئے اُن کا ماننا اقرار کے پردے میں انکار کے مترادف ہے۔ اس کی تشریح حسب ِذیل ہے: خلع عورت کا وہ حق ہے جو اسے مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں دیا گیا ہے۔ مرد تو اپنا حق طلاق ایسے موقعوں پر استعمال کرلیتا ہے جب وہ اپنی بیوی سے ناخوش ہو۔ لیکن اگر عورت کو ایسی ضرورت پیش آجائے کہ وہ خاوند سے گلو خلاصی کرانا چاہے، مثلاً شوہر نامرد ہو، وہ حقوقِ زوجیت ادا کرنے پر قادر نہ ہو، یا وہ نان نفقہ دینے پر قادر نہ ہو یا قادر تو ہو لیکن دیتا نہ ہو، یا کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو جس کا علم عورت کو شادی کے بعد ہو، یا وہ سخت ظالم و جابر رضی اللہ عنہ قسم کا ہو جو عورت پر بے جا ظلم و تشدد کرتا ہو، یا شکل و صورت کے اعتبار سے عورت کے لئے ناقابل برداشت اور اس کا اس کے ساتھ نباہ مشکل ہو؛ اس قسم کی تمام صورتوں میں شریعت نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ شوہر کا دیا ہوا حق مہر اُس کو واپس کرکے اس سے طلاق کا مطالبہ کرے۔ اگر شوہر عورت کی خواہش او رمطالبے پر اُس کو طلاق دے دے تو ٹھیک ہے، مسئلہ نہایت آسانی سے گھر کے اندر ہی حل ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر مرد مذکورہ معقول وجوہات کے باوجود عورت کی خواہش او رمطالبے کو تسلیم نہ کرے، تو پھر عدالت یا پنچایت کے ذریعے سے اس مسئلے کو حل کیا جائے گا، اگر عدالت اس نتیجے