کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 56
ہیں، اپنی دعوت کا ایک غا لب حصّہ اﷲ تعالیٰ کو اس کی حاکمیت میں اکیلے ماننے پر زور دینے میں صرف کرتے ہیں، جسے وہ اس مشہور و معروف عبارت سے تعبیر کرتے ہیں: "الحاکمیة ﷲ" (حاکمیت کا حق صرف اﷲ تعالیٰ ہی کے لئے ہے )۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حاکمیتِ اعلی صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے ہی ہے کہ اس میں،اور نہ کسی اور چیز میں اس کا کوئی شریک ہے ۔ لیکن ، اُن میں سے کوئی مذاہبِ اربعہ میں سے کسی مذہب کا مقلد ہوتا ہے اور جب اس کے پاس کوئی بالکل صریح و صحیح سنت آتی ہے تو کہتا ہے کہ یہ میرے مذہب کے خلاف ہے !تو کہاں گیا اﷲ تعالیٰ کا حکم اتباع سنت کے بارے میں؟! اوران میں سے آپ کسی کو پائیں گے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت صوفیوں کی طریقت پر کررہا ہوگا! تو کہاں گیا اﷲ تعالیٰ کا حکم توحید کے بارے میں ؟! تو وہ دوسروں سے وہ مطالبہ کرتے ہیں جو اپنے آپ سے نہیں کرتے ۔یہ تو بہت آسان کام ہے کہ اپنے عقیدے ، عبادت ، سلوک اور اپنے گھر ، بچوں کی تربیت ، خریدوفروخت میں اﷲ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرو جبکہ اس کے برعکس یہ بہت مشکل اور کٹھن ہے کہ تم کسی حاکم کو جبراً کہویا ایسے حاکم کو معزول کرو کہ جو اپنے بہت سے اَحکامات میں اﷲ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف فیصلے کرتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ آسان کو چھوڑ کر مشکل راہ کو اپنایا جارہاہے؟! غرض ایسا رویہ دو میں سے ایک بات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔یا تو یہ رویہ نتیجہ ہے اس بری تربیت اوربری توجیہ کا ہے، یا پھر یہ خود داعیان اسلام کا اپنا وہ برا عقیدہ ہے جس نے اُنہیں اس بات سے روک اور پھیر کر جس کا اپنانا ان کی استطاعت میں ہے ،اس بات کی طرف مائل کر دیا ہے جس کی وہ استطاعت نہیں رکھتے ۔ آج کے اس دور میں مَیں تمام تردعوتِ دین کا محور تصیفہ وتربیہ کے عمل کو بنا دینے اور صحیح عقیدے وعبادت کی جانب دعوت دینے کے سوا اور کوئی نظریہ نہیں رکھتا۔ ہر کوئی یہ کام اپنی استطاعت بھر انجام دے، اﷲ تعالیٰ کسی جان کو اس کی وسعت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا، اور تمام تعریفیں اﷲ رب العالمین کے لئے ہیں ۔ اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر!! (بہ شکریہ 'اصلی اہل سنت. کام')