کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 55
کسی ایسے ملک میں جہاں اﷲ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں ہوتے، وہاں اسلامی ریاست بھی قائم ہو جائے ، لیکن اللہ کے اپنے ماننے والوں سے تقاضوں میں بھی ترجیحات ہیں، کیونکہ وہ پہلی بات جس میں اﷲ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق حکم ہونا چاہئے وہ اقامتِ توحید ہے اور اس کے علاوہ بھی بے شک کچھ ایسے خاص اُمور ہیں جو بعض زمانوں کی پیداوار ہیں جن سے الگ تھلگ رہنا اختلاط سے بہتر ہے ، یعنی ایک مسلمان معاشرے سے الگ ہو کر اپنے ربّ کی عبادت میں لگا رَہے ، اور خود کو لوگوں کے شر سے بچا ئے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے، اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اگرچہ جو اصل اصول ہے وہ تو یہی ہے جیسا کہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما کی حدیث میں بیان ہوا : ((الـْمُؤْمِنُ الَّذِى يُخَالِطُ النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الـْمُؤْمِنِ الَّذِى لاَ يُخَالِطُ النَّاسَ وَلاَ يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ)) [1] ''وہ مومن جو لوگوں سے میل ملاپ کرتا ہے اور ان کی جانب سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے، اس مومن سے بہتر ہے جو نہ لوگوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور نہ ہی ان کی جانب سے ملنے والی اذیتوں پر صبرکرتا ہے۔'' پس ایک اسلامی ریاست بلاشبہ ایک وسیلہ ہے اﷲ تعالیٰ کا حکم زمین پرقائم کرنے کا مگر یہ بذاتِ خود کوئی غرض وغایت نہیں۔بہت عجیب بات ہے کہ بعض داعیانِ اسلام اس بات کا اہتمام تو کرتے ہیں جو حقیقتاً ان کے بس میں نہیں، اور اس بات کو چھوڑ دیتے ہیں جو ان پر واجب ہے اور آسان بھی ! اور وہ اپنے نفس کا مجاہدہ کرناہے جیسا کہ ایک مسلمان داعی کا قول ہے جس قول کی وصیت میں اس داعی اسلام کے پیروکاروں کو اکثر کرتا ہوں: "أقیموا دولة الإسلام في نفوسکم تقم لکم في أرضکم" ''اپنے دلوں پر اسلامی حکومت قائم کر لو وہ تمہارے لئے تمہاری زمینوں پر بھی قائم کردی جائے گی۔'' اس کے باوجود ہم بہت سے اُن کے پیروکاروں کو پاتے ہیں کہ وہ اس بات کی مخالفت کرتے
[1] جامع ترمذی:۲۵۰۷؛سنن ابن ماجہ:4168؛سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ:۹۳۹