کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 54
سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے خس خاشاک کی سی ہوگی، اﷲ تعالیٰ تمہارا رعب وہیبت کافروں کے دلوں سے نکال دے گا،اور تمہارے دلوں میں 'وَہن ' ڈال دے گا۔ اُنہوں نے دریافت کیا: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یہ'وہن' کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''دنیا کی محبت اور موت سے کراہیت۔'' پس علماے کرام پر جو واجب ہے کہ وہ 'تصیفہ و تربیہ 'کا جہاد کریں، وہ اس طرح کہ مسلمانوں کو صحیح توحید ، صحیح عقائد ، عبادت اور سلوک کی تعلیم دیں، ہر کوئی اپنی طاقت بھر اپنے اس ملک میں جس میں وہ رہتا ہے۔ کیونکہ اپنی اس موجودہ حالت میں کہ وہ منتشر ہیں، نہ ہمیں کوئی ایک ملک جمع کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایک صف ، اس حالت میں ہم یہودیوں کے خلاف جہاد کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان دشمنوں کے خلاف جو چاروں طرف سے ہم پر یلغار کر رہے ہیں اس قسم کے جہاد کی استطاعت نہیں رکھتے ، لیکن ہم پر واجب ہے کہ ہر اس قسم کا شرعی وسیلہ اختیار کریں جو ہمارے بس میں ہو، کیونکہ ہمارے پاس مادی قوت تو نہیں ہے،اور اگر ہو بھی تو ہم عملی اعتبار سے متحرک نہیں ہو سکتے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں ایسی حکومتیں، قیادتیں اور حکام ہیں جن کی سیا ست شرعی تقاضوں پر مبنی نہیں، لیکن باذن اﷲ ہم ان دو عظیم اُمور پر کام کرنے کی استطاعت ضرور رکھتے ہیں جو میں نے ابھی بیان کئے۔ پس جب مسلمان داعیان اس اہم ترین فرض کو لے کر کھڑے ہوں گے، ایسے ملک میں جہاں کی سیاست شرعی سیاست کے موافق اور اس پر مبنی نہیں ، اور اس اساس پر وہ سب جمع ہو جائیں گے، تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اس دن ان پر اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آئے گا: ﴿ وَيَومَئِذٍ يَفرَ‌حُ المُؤمِنونَ ﴿4﴾ بِنَصرِ‌ اللَّهِ...5﴾[1] ''اس دن مؤمنین خوشیاں منائیں گے اﷲ تعالیٰ کی نصرت پر۔'' ہرمسلمان پر واجب ہے کہ وہ حکم الٰہی اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر حسبِ استطاعت نافذ کرے۔چنانچہ ہر مسلمان کو لازم ہے کہ وہ بقدرِ استطاعت کام کرے، اﷲ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا۔ صحیح توحید اور صحیح عبادت کے قیام سے لازم نہیں آتا کہ
[1] سورة الروم :4، 5