کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 53
اور اُن میں سے ہر ایک پر وہ واجب قرار دیا جو دوسرے پر واجب نہیں، پس جو علما نہیں، ان کو چاہئے کہ وہ اہل علم سے دریافت کریں، اور علماے کرام پر یہ واجب ہے کہ وہ جس چیز کی بابت دریافت کیا جارہاہے، اُس کا جواب دیں۔اسی بنا پر مخاطب اور حالات بدل جانے سے واجبات بھی مختلف ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ آج کے اس دور میں ایک عالم پر واجب ہے کہ وہ بقدرِ استطاعت حق بات کی جانب دعوت دے، اور جو عالم نہیں ہے اسے چاہیے کہ جو بات اس سے یا اس کے زیر کفالت لوگوں جیسے بیوی بچے وغیرہ سے تعلق رکھتی ہے اس کا سوال علماے کرام سے کرے۔ اگر مسلمانوں کے یہ دونوں فریق اپنی استطاعت بھر ذمہ داری نبھاتے رہیں تو یقیناً نجات پاجائیں گے۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...286﴾[1] ''اﷲ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا ۔'' صد افسوس ہم مسلمان ایک ایسے پُر الم دور سے گزررہے ہیں جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، یہ کہ کفار چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ہیں، جیساکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحیح و معروف حدیث میں اس کی خبر دی: ((يُوشِكُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا». فَقَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ قَالَ: «بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزِعَنَّ اللّٰه مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ اللّٰه فِى قُلُوبِكُمُ الْوَهَنَ». فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللّٰه وَمَا الْوَهَنُ؟ قَالَ: «حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الـْمَوْتِ)) [2] ''ایسا وقت آنے ولاا ہے تم پر چاروں طرف سے قومیں ٹوٹ پڑیں گی جیسا کہ کھانے والے ایک دوسرے کو پلیٹ کی طرف دعوت دیتے ہیں، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا اس زمانے میں ہماری قلّت ِ تعداد کی بنا پر ايسا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' نہیں، تم اس زمانے میں بہت کثیر تعداد میں ہو گے، لیکن تمہاری حیثیت
[1] سورة البقرة:286 [2] سنن ابوداؤد:4297؛ مسند احمد :8947؛ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:۹۵۸