کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 52
'فقہ الواقع'(حالاتِ حاضرہ کا علم ) اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا جو کہ اُن لوگوں کی ذمہ داری ہے جو اہل حل و عقد ہیں، جن کے لئے یہ ممکن بھی ہے کہ اس معرفت سے وہ عملی استفادہ حاصل کر پائیں۔جہاں تک معاملہ ہے ان لوگوں کا جن کے ہاتھ میں نہ حل ہے، نہ ہی عقد اور وہ لوگوں کو اُن باتوں میں مشغول کر رہے ہیں جو اہم تو ہیں مگر اہم ترین نہیں، تو یہ بات اُنہیں صحیح معرفت سے دور لے جاتی ہے۔ یہ بات تو ہم آج بہت سے اسلامی گروپوں اور جماعتوں کے مناہج میں باقاعدہ ہاتھوں سے چھو کر محسوس کر سکتے ہیں، کہ ہم جانتے ہیں کہ بعض داعیان مخلص نوجوانوں کو... جو اُن کے گرد اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ وہ اُنہیں صحیح عقیدہ، عبادت اور سلوک کی تعلیم دیں اور سمجھائیں ... اس سے پھیر دیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد یہ داعیانِ سیاست سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان پارلیمنٹوں میں داخل ہونے کی کو شش کرتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف فیصلے کرتی ہے ۔اس طرح وہ اُنہیں اس اہم ترین چیز سے پھیر دیتے ہیں اس چیز کی طرف جو اِن موجودہ حالات میں اہم نہیں ہے۔ فی زمانہ ہر مسلمان کی ذمہ داری جہاں تک اس بات کا تعلق ہے جو سوال میں پوچھی گئی تھی کہ کیسے ایک مسلمان ان پُر الم حالات میں اپنا کردار ادا کر کے بریٔ الذمہ ہو سکتا ہے ، تو ہم کہتے ہیں : ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق کام کرے، ان میں سے ایک عالم کی جو ذمہ داری ہے، وہ غیر عالم کی نہیں، جیسا کہ میں اس قسم کی صورتحال میں بیان کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی نعمت اپنی کتاب کے ذریعہ مکمل فرمادی ہے اور اسے مسلمانوں کے لئے ایک دستو ر بنادیا ہے ۔ اسی دستور میں سے اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے: ﴿ فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ‌ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ ﴿7﴾[1] ''اہل ذکر (علماے کرام) سے سوال کرو اگر تمہیں علم نہ ہو۔'' اﷲ تعالیٰ نے اسلامی معاشرے کو دو اقسام میں تقسیم فرمایا: ایک عالم اور دوسرے غیر عالم،
[1] سورة الانبياء:7