کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 51
اعتبار سے عقیدے سے شروع کریں، پھر عبادت پھر سلوک وعمل ،پھر اس کے بعد ایک دن آئے گا جب ہم سیاسی مرحلے میں داخل ہوں گے مگر اس کے شرعی مفہوم کے مطابق ۔ کیونکہ سیاست کا معنی ہے : اُمّت کے معاملات کا انتظام کرنا، اُنہیں چلانا۔ پس اُمت کے معاملات کون چلاتا ہے؟ نہ زید ، نہ بکر ، نہ عمرو، اور نہ ہی وہ جو کسی پارٹی کی بنیاد رکھے یا کسی تحریک کی سربراہی کرتا ہو یا کسی جماعت کو چلاتا ہو!! یہ معاملہ تو خاص ولی امر (حکمران) سے تعلق رکھتا ہے ، جس کی مسلمانوں نے بیعت کی ہے ۔یہی ہے وہ جس پر واجب ہے کہ وہ موجودہ سیاسی حالات اور ان سے نمٹنے کی معرفت حاصل کرے۔لیکن اگر مسلمان متحدہ نہ ہوں جیسا کہ ہماری موجودہ حالت ہے تو ہر حاکم اپنی سلطنت کی حدود میں ذمہ دار ہے۔لیکن اگر ہم اپنے آپ کو ان اُمور میں مشغول رکھیں جن کے بارے میں بالفرض ہم مان بھی لیں کہ ہمیں اس کی کماحقہ معرفت حاصل ہوگئی ہے تب بھی ہمیں سیاسی اُمور کی یہ معرفت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی، کیونکہ ہمارے لئے اسے نافذ کرنے کا اِمکان ہی نہیں، کیونکہ ہم اُمت کے اُمور چلانے کے بارے میں فیصلوں کا اختیار ہی نہیں رکھتے۔ تو محض یہ معرفت بیکارہے جس کا کوئی فائدہ ہی نہیں!! میں آپ کو ایک مثال بیان کرتا ہوں کہ وہ جنگیں جو مسلمانوں کے خلاف بہت سے اسلامی ممالک میں بپا ہیں، کیا اس بات کاکوئی فائدہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے جذبات اُبھاریں اور اُنہیں اس جانب برانگیختہ کریں جبکہ ہم اس جہاد کا کوئی اختیار ہی نہیں رکھتے جس کا انتظام ایک ایسے ذمہ دار امامِ جہاد کے ذمہ ہے جس کی بیعت ہو چکی ہو؟! اس کے بغیر اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ واجب نہیں !لیکن ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کام اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہے۔اسی لئے ہم پر واجب ہے کہ ہم آپ کواور دوسروں کو جنہیں ہم اپنی دعوت پہنچا رہے ہیں، اس بات میں مشغول رکھیں کہ وہ صحیح اسلام کا فہم حاصل کرکے اس پر صحیح تربیت حاصل کریں۔لیکن اگر ہم محض اُنہیں جذباتی اور ولولہ انگیز باتوں میں مشغول رکھیں گے تو یہ اُنہیں اس بات سے دور کردیں گی کہ وہ اُس دعوت کے فہم میں مضبوطی حاصل کرپائیں جو ہر مکلّف مسلمان پر واجب ہے جیسے عقائد ،عبادت اورعملی رویوں کی تصحیح۔ مزید برآں یہ اُن فرائض عینیہ میں سے ہے جس میںتقصیر کا عذر قابل قبول نہیں، جبکہ جو دوسرے اُمور ہیں ان میں سے تو بعض فرضِ کفایہ ہیں جیساکہ آج کل جو کہا جاتا ہے