کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 50
سرفراز ہو سکیں۔ اسی لئے تصفیہ وتربیہ کا عمل آج مفقود ہے!! اسی لئے ان دو اہم باتوں کو یقینی بنانے سے پہلے کسی بھی اسلامی معاشرے میں جہاں شریعت کا نفاذ نہ ہو، وہاں کسی سیاسی تحریک میں حصہ لینا بُرے اثرات مرتب کرنے کا پیش خیمہ ہوگا۔ ہاں! اولو الامر کی نصیحت وخیر خواہی کرنا سیاسی تحریک کا متبادل ہوسکتا ہے، کسی بھی ایسے ملک میں جہاں شریعت کی تحکیم ہو،(خفیہ) مشاورتوں یا الزامی و تشہیری زبان استعمال کرنے سے پرہیز کرتے ہوئے شرعی ضوابط کے تحت بطورِ احسن اپنی بات پہنچا دینے کے ذریعہ ، پس حق بات کو پہنچا دینا حجت کو تمام کرتا اور پہنچا دینے والے کو بریٔ الذمہ کرتا ہے۔ نصیحت و خیر خواہی میں سے یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو اس چیز میں مصروف کریں جو اُنہیں فائدہ پہنچائے جیسے عقائد ، عبادت، رویوں، اور معاملات کی تصحیح۔ ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ یہ گمان کرتے ہوں کہ ہم تصفیہ و تربیہ کے منہج کی تمام اسلامی معاشروں میں نافذ ہوجانے کی اُمید رکھتے ہیں!ہم تو یہ بات نہ سو چتے ہیں اور نہ ہی ایسی خام خیالی میں مبتلا ہیں ، کیونکہ ایسا ہو جانا تو محال ہے، اس لئے بھی کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ﴿وَلَو شاءَ رَ‌بُّكَ لَجَعَلَ النّاسَ أُمَّةً وحِدَةً وَلا يَزالونَ مُختَلِفينَ ﴿118﴾[1] ''اگر آپ کا ربّ چاہتا تو تمام انسانوں کی ایک ہی اُمّت بنا دیتا مگر یہ لوگ ہمیشہ اختلافات میں ہی رہیں گے۔'' البتہ ان لوگوں پر ہمارے ربّ تعالیٰ کا یہ فرمان :اختلافات کا شکار رہنا، لاگو نہیں ہو گا، اگر یہ اسلام کا صحیح فہم حاصل کریں اور اس صحیح اسلام پر خود اپنی ، اپنے اہل و عیال اور گردونواح کے لوگوں کی تربیت کریں۔ سیاسی عمل میں کون حصہ لے ؟ ... اور کب؟ آجکل سیاسی عمل یا سرگرمی میں حصّہ لینا ایک مشغلہ بن گیا ہے ! حالانکہ ہم اس کے منکر نہیں مگر ہم بیک وقت ایک شرعی و منطقی تسلسل پہ ایمان رکھتے ہیں کہ ہم اصلاح وتربیت کے
[1] سورة هود:118