کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 5
مراحل پرموساد سمیت اسرائیل کے عسکری اور سٹرٹیجک ماہرین سے مشاورت کی ہے۔ ترک وزیر اعظم رجب طیب اُردگان نے بھی کہا ہے کہ اُن کے پاس اس اَمر کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ مصر میں فوجی بغاوت کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے۔اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی ایک رپورٹ کے مطابق جنرل فتح نے صدر مرسی کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں حماس کے مسلح رد عمل کی صورت میں اسرائیلی وزیر اعظم سے حماس کے خلاف محاذ کھولنے کی ضمانت حاصل کرلی تھی۔ 24 جون 2013ء کو فوج کی طرف سے سال بھر کا پہلا سخت پیغام صدر مرسی کے نام یہ تھا کہ فوج ملک میں جاری بے چینی پر خاموش نہیں رہے گی۔ اس وارننگ کے ٹھیک نو دن کے بعد فوج نے پہلے ہی ہلے میں منتخب صدر مرسی کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا، اُن پر مصری فوج کے خلاف فلسطینی تنظیم حماس سے ساز باز کا الزام لگایا گیا اور اب ایک ایک ماہ کے وقفے سے اُن کی حراست کے دورانیے کو طویل کیا جارہا ہے۔ صدر مرسی نے عدلیہ میں فوجی آمرحُسنی مبارک کے حامی جج سیکولر حضرات کی اکثریت پر قابو پانے کیلئے اپریل کے مہینے میں جج حضرات کی ریٹائرمنٹ کی عمر 70 سے کم کرکے 60برس کردی تھی، عدلیہ تو پہلے ہی مرسی کے لئے مشکل فیصلے صادر کررہی تھی، اس فیصلے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یاد رہے کہ مصری سپریم کورٹ نے گذشتہ سال صدر مرسی کی صدارت کے دوسرے ہی مہینے اس پارلیمنٹ کو معطّل قرار دے دیا تھا جس میں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے 44 فیصد اور سلفی النور پارٹی کے منتخب ارکان 24 فیصد تھے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو اُنہی دنوں صدر مرسی نے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کالعدم کر دیا تھا۔ جنرل عبد الفتاح سیسی نے عدلیہ کے گٹھ جوڑسے منتخب جمہوریت پرجو شب خون مارا ہے، اس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آئین سے قوت پانے اور اس کو تحفظ دینے والی عدلیہ کے سربراہ جسٹس عدلی منصور کو اُس بغاوت کا عبوری صدرچنا گیا ہے جس نے سب سے پہلا قدم آئین کو معطل کرکے اُٹھایا۔3 جولائی کے غاصبانہ تسلط کے بعد مصر کے عوام مُصر ہیں کہ صدر مرسی ہی آئینی صدر ہیں،اور اُنہیں اس کے سوا کوئی اور حکمران قبول نہیں، مرسی نے بھی منصب سے عزل کو ردّ کردیا ہے، اس کے لئے مصری غاصب حکومت ہر طرح کے حیلے بہانے اختیار کررہی ہے۔ملحد آمرحسنی مبارک کا دور واپس آگیا ہے،اُس سے سزاؤں کو ختم کیا جارہا اور اُس کے مخالفین پر راستے بند کئے جارہے ہیں۔ مصری عوام ہر طرح احتجاج کر رہے ہیں۔ دو ماہ کے عرصے میں کم ازکم چار بار قابض فوج کی