کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 49
کیونکہ اسلام کی دعوت سب سے پہلے دعوتِ حق ہے ۔ جائز نہیں کہ ہم یہ کہیں: ہم توعرب ہیں اورقرآنِ مجید ہماری زبان میں نازل ہوا ہے،حالانکہ یادرکھیں کہ آج کے عربوں کا معاملہ عربی زبان سے دوری کے سبب ان عجمیوں سے بالکل برعکس ہوگیا ہے جو عربی سیکھتے ہیں۔ پس اس بات نے اُنہیں اُن کے ربّ کی کتاب اور اُن کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے دور کر دیا۔ بالفرض ہم عربوں نے صحیح طور پر اسلام کا فہم حاصل اگر کر بھی لیا ہے، تب بھی ہم پر واجب نہیں کہ ہم سیاسی عمل میں حصہ لینا شروع کردیں، اور لوگوں کو سیاسی تحریکوں سے وابستہ کریں ، اور اُنہیں جس چیز میں مشغول ہونا چاہیے یعنی اسلام کے عقیدے ، عبادت ، معاملات اور سلوک کا فہم حاصل کرنا سے ہٹا کر سیاست میں مشغول رکھیں۔ مجھے یقین نہیں کہ کہیں ایسے لاکھوں کی تعدادمیں لوگ ہوں جنہوں نے اسلام کا صحیح فہم یعنی عقیدے ، عبادت اور سلوک میں حاصل کیا ہو اور اسی پر تربیت پائی ہو۔ تبدیلی یا انقلاب کی بنیاد :منہج تصفیہ و تر بیہ اسی وجہ سے ہم ہمیشہ یہ کہتے چلے آئے ہیں اور انہی دواساسی نکات پر جو تبدیلی و انقلاب کا قاعدہ ہے، ہمیشہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں، اور وہ دو نکات تصفیہ(دین کو غلط باتوں سے پاک کرنا) اور تربیہ (اس پاک شدہ دین پر لوگوں کی تربیت کرنا ) ہیں۔ ان دونوں اُمور کو یکجا کرنا ضروری ہے: تصفیہ اور تربیہ ، کیونکہ اگر کسی ملک میں کسی طرح کا تصفیہ کا عمل ہوا جو کہ عقیدے میں ہے تو یہ اپنی حد تک واقعی ایک بہت بڑا اور عظیم کارنامہ ہے جو اتنے بڑے اسلامی معاشرے کے ایک حصہ میں رونما ہوا ، لیکن جہاں تک عبادت کا معاملہ ہے تو اسے بھی مذہبی تنگ نظری سے پاک کر کے سنّتِ صحیحہ کی جانب رجوع کا عمل ہونا چاہئے۔ ہوسکتا ہے ایسے بڑے /جید علماے کرام موجود ہوں جو اسلام کا ہر زاویے سے صحیح فہم رکھتے ہوں مگر میں یہ یقین نہیں رکھتا کہ ایک فرد یا دو، تین یا دس بیس افراد اس تصفیے کے فرض کو ادا کر پائیں۔ تصفیہ کرنا (پاک کرنا ) اسلام کو ہر اس چیز سے جو اُس میں درآئی ہے خواہ وہ عقیدے میں ہو یا عبادت وسلوک میں،محض کچھ افراد کی یہ استطاعت نہیں کہ وہ اسلام سے منسلک ہر غلط چیز کا تصفیہ کرکے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی اس پر صحیح و سلیم تربیت کر کے