کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 48
جیسا کہ مسلمان ہونے کے ناطے سے آج ہمیں بہت سی ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جن کا سامنا اوّلین مسلمانوں کو نہیں کرنا پڑا تھا، کیونکہ ہمارے یہاں مختلف ناموں کے تحت صحیح عقیدے اور منہج حق سے منحرف اہل بدعت کے اشکالات اور شبہات کے سبب عقیدے کا بہت سا بگاڑ موجود ہے۔ ان مختلف ناموں یا دعوتوں میں سے یہ بھی ہے کہ ہم صرف کتاب وسنّت کی طرف دعوت دیتے ہیں!جیسا کہ علم الکلام کی جانب منسوب لوگ بھی یہی زعم رکھتے اور دعوی کرتے ہیں۔ اس بارے میں صحیح احادیث قابل ذکر ہیں، جن میں سے یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان احادیث میں سے بعض میں غربا (معاشرے میں اجنبی لوگوں) کا ذکر فرمایا ، تو یہ فرمایا: ((للواحد منهم خمسون من الأجر»، قالوا: «منا یا رسول اللّٰه أو منهم؟»... قال: «منکم)) [1] ''ان میں کے ایک شخص کا ثواب پچاس کے ثواب کے برابر ہوگا، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پچاس اُن میں سے یا ہم میں سے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میں سے۔'' یہ نتیجہ ہے آج اسلام میں اُس شدید غربت (اجنبیت ) کا جو دورِ اوّل میں نہ تھی۔بلاشبہ دورِ اوّل میں اجنبیت صریح شرک اور ہر شبہ سے خالی خالص توحید کے درمیان تھی، کھلم کھلا کفر اور ایمانِ صادق کے درمیان تھی، جبکہ آج خود مسلمانوں کے اندر ہی مشکلات پائی جاتی ہیں کہ ان میں سے اکثر کی توحید ہی ملاوٹوں سے اَٹی ہوئی ہے، یہ اپنی عبادات غیر اﷲ کے لئے ادا کرتے ہیں پھر بھی دعویٰ ایمان کا ہے۔ اوّلاً تو اس مسئلے پر متوجہ ہونا ضروری ہے ۔ توحید اور اس کے لوازم سے پہلے اقامتِ دین کی دعوت ... چہ معنی دارد؟ ثانیاً یہ جائز نہیں کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اب توحید کے مرحلے سے آگے نکل کر دوسرے مرحلے میں منتقل ہوجائیں یعنی سیاسی عمل کا مرحلہ!!
[1] معجم کبیرازطبرانی :۱۰/۲۵۵،رقم:۱۰۳۹۲؛ سنن ابوداؤد:۲۳۲۱؛موسوعۃ الالبانی فی العقيدة:2/21