کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 47
آپ آج بکریوں کی نگہبانی کرنے والی سے نہیں بلکہ اُمّت اور جماعتوں کی نگہبانی کرنے والوں سے پوچھیں، تو وہ اس کا جواب دینے کے بارے میں حیران وپریشان ہوں گے جیسا کہ آج بہت سے لوگ اس کا جواب دینے میں حیران وپریشان ہوتے ہیں سوائے جس پر اﷲرحم فرمائے!! صحیح عقیدے کی جانب دعوت عظیم اور جہدِ مسلسل کی متقاضی ہے! لہٰذا توحید کی جانب دعوت اور اِسے لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنا، ہم سے اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم آیات پر سے بنا تفصیل کے نہ گزر جائیں جیسا کہ عہد اوّل میں تھا۔ اولاً تو وہ عربی عبارات کو بآسانی سمجھ لیتے تھے اور ثانیاً وہ اس چیز پر قائم تھے جو صحیح عقیدے کے ہرگز مخالف نہ تھی کیونکہ ان کے یہاں عقیدے کا وہ انحراف اورٹیڑھ پن نہ تھا جو فلسفہ اور علم الکلا م کی پیداوار ہے۔ جبکہ ہماری موجودہ صورتحال اس سے بالکل مختلف ہےجو اوّل دور کے مسلمانوں کی تھی۔ اسی لئے ہم اس وہم میں مبتلا نہ ہوں کہ آج صحیح عقیدے کی جانب دعوت دینا اتنا آسان ہے جیساکہ عہدِ اوّل میں تھا ، اس پر مزید روشنی میں ایسی مثال کے ذریعے ڈالتا ہوں جس کے بارے میں کوئی دورائے نہ ہوں گی، ان شاء اﷲ... عہدِ اوّل میں جو آسانی معروف تھی، وہ یہ کہ ایک صحابی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست ایک حدیث سنتا، پھر ایک تابعی وہ حدیث ایک صحابی سے براہِ راست سنتا ... اور اسی طرح ہم ان تین زمانوں یا نسلوں تک چلتے ہیں جن کے راہِ راست پر ہونے کی گواہی دی گئی ہے ، اور ہم پوچھتے ہیں: کیا ان کے یہاں کوئی چیز فن حدیث کے نام سے تھی؟ جواب: نہیں، کیا اُن کے یہاں کوئی چیز جرح وتعدیل کے نام سے موجود تھی؟ جواب : نہیں، جبکہ آج یہ دونوں علوم ایک طالبِ علم کے لئے لازم ہیں ، اور یہ فرضِ کفایہ میں سے ہیں، اور یہ اس لئے کہ آج ایک عالم حدیث کی معرفت حاصل کرسکے کہ آیا وہ صحیح ہے یا ضعیف؟ پس یہ کام اتنا آسان و سہل شمار نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ ایک صحابی کے لئے تھا۔ کیونکہ ایک صحابی حدیث کو دوسرے ایسے صحابہ رضی اﷲ عنہم سے حاصل کرلیا کرتا تھاجن کے ایمان کی گواہی اﷲ تعالیٰ نے دی ہے۔جو اُن دنوں آسان تھا ،وہ آج آسان نہیں۔ کیونکہ ان کے ہاں صاف ستھرا علم تھا اور علم حاصل کرنے کے مصادر ثقہ تھے ۔ اسی لئے اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا اہتمام کرنا اسی طرح ضروری ہے