کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 46
ﷲ صحیح حدیث ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول : ((ارحموا من في الأرض)) (جو زمین میں ہیں، ان پر رحم کرو) سے حشرات الارض یا کیچوے مراد نہیں جو زمین کے اندر ہوتے ہیں بلکہ اس سے مراد جو علىٰ الأرض زمین پر انسان وحیوان ہیں، اور یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے مطابق ہے :((یرحمکم من في السماء)) ''جو آسمان میں (پر ) ہے۔'' یعنی: علىٰ السماء (آسمان پر ہے)، چنانچہ دعوتِ حق کو قبول کرنے والوں کے لئے اس قسم کی تفصیل جاننا ضروری ہے تاکہ وہ مکمّل طور پر دلیل پر قائم ہوں۔ اس سے واضح تر مثال اس لونڈی کے متعلق مشہور ومعروف حدیث ہے جو بکریاں چرایا کرتی تھی، میں اس حدیث میں سے صرف متعلقہ حصہ بیان کروں گا،جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا : أین اللّٰه ؟(اﷲ تعالیٰ کہاں ہے؟) تو اس جواب دیا: في السماء[1] ''آسمان میں'' یعنی وہ آسمان پر ہے ۔ اگر آج آپ جامعہ ازہر کے بڑے مشائخ سے پوچھیں مثلاً اﷲ تعالیٰ کہاں ہے؟ تو وہ آپ کو جواب دیں گے: ہر جگہ !جبکہ اس لونڈی تک نے یہ جواب دیا تھا کہ اﷲ تعالیٰ آسمان پر ہے ،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق فرمائی تھی، کیوں؟ کیونکہ اُس نے فطرت کے مطابق جواب دیا ۔ وہ ایسے ماحول میں رہتی تھی جسے ہم اپنی آج کل کی تعبیر کے مطابق 'سلفی ماحول ' کہہ سکتے ہیں ، جس میں عام تعبیر کے مطابق کوئی برا ماحول اثر انداز نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ مدرسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم یافتہ تھی۔یہ مدرسہ بعض مردوں اور عورتوں کے لئے خاص نہیں تھا بلکہ یہ تمام لوگوں میں عام تھا جو مردوں اور عورتوں کو شامل تھا اور اپنے تکمیل پر پورے معاشرے کے لئے عام ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بکریاں چرانے والی لونڈی بھی یہ جانتی تھی کیونکہ کسی خراب ماحول کا اس پر اثر نہ ہوا تھا۔ وہ کتاب و سنت میں موجود اس صحیح عقیدے کو جانتی تھی جو آج بہت سے کتاب و سنت کے علم کے دعویداروں کو نہیں معلوم ۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ ان کا ربّ کہاں ہے! حالانکہ یہ کتاب و سنت میں مذکورہے۔ میں کہتا ہوں کہ آج اس بیان اور وضاحت میں سے کوئی چیز مسلمانوں کے درمیان موجود نہیں، اگر
[1] صحیح مسلم :1199؛سنن ابوداؤد:۹۳۰