کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 45
معبود کو ایک مکان وجہت یعنی آسمان جو اسی کی مخلوق ہے میں متعین کردیا!! چنانچہ وہ یہ شبہ اپنے مخاطب کے دل میں ڈالتا ہے۔ اس مثال سے میری مراد یہ بیان کرنا تھا کہ افسوس کی بات ہے کہ عقیدۂ توحید اپنے تمام ترلوازم اور مطالبات کے ساتھ بہت سے ایسے لوگوں تک کے ذہنوں میں بھی واضح نہیں جو خود سلفی عقیدے پر ایمان لائے ہیں۔ ان لوگوں کی تو دورکی بات رہی جو اس قسم کے مسائل میں اشاعرہ، ماتر یدیہ اور جہمیہ کے عقائد کی پیروی کرتے ہیں۔ میں نے یہ مثال اس لئے پیش کی کیونکہ یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں جیساکہ آج کچھ داعیان جو قرآن و سنت کی جانب دعوت میں ہمارے ہم نوا ہیں، تصور کرتے ہیں۔ یہ معاملہ اس لئے اتنا سہل نہیں جیسا کہ ان میں سے بعض دعوٰی کرتے ہیں کیونکہ اس کا سبب وہی فرق ہے جو پہلے بیان ہوا کہ اوّلین جاہلیت کے حامل مشرکین (جنہیں جب دعوت دی جاتی کہ وہ لا إله إلا اللّٰه کہیں تو وہ انکار کرتے ، کیونکہ وہ اس کلمۂطیبہ کا معنیٰ جانتے تھے) اور موجودہ دور کے اکثرمسلمانوں میں کہ جب یہ کلمہ پڑھتے ہیں تو اس کا صحیح معنیٰ نہیں جانتے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو اﷲ تعالیٰ کی اپنی مخلوقات پر بلندی کے عقیدے کے بارے میں بھی اب پایا جاتا ہے، یہ بھی وضاحت کا متقاضی ہے اور یہی کافی نہیں کہ ایک مسلمان یہ عقیدہ رکھے: ﴿الرَّ‌حمـنُ عَلَى العَر‌شِ استَوى ﴿5﴾[1] ''وہ رحمٰن ہے جو عرش پر مستوی ہوا ۔'' ((ارحموا من في الأرض یرحمکم من في السماء)) [2] ''جو زمین میں ہیں، ان پر مہربانی کرو؛ جو آسمان پر ہے، وہ تم پر رحم فرمائے گا۔'' بنا یہ جانے کہ کلمہ 'فی'(میں) جو اس حدیث میں بیان ہوا ظرفیہ نہیں، اس کی مثال اس 'فی' کی سی ہے جو اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان میں وارد ہوا : ﴿ءَأَمِنتُم مَن فِى السَّماءِ...16﴾[3] ''کیا تم اس ذات سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان پر ہے۔'' کیونکہ'فی'یہاں بمعنی 'علیٰ'(پر /کے اوپر) ہے، اور اس کی بہت سی دلیلیں موجود ہیں۔ جن میں سے سابقہ حدیث جو لوگوں کی زبان زد عام ہے اور یہ اپنے مجموعی طرق کے اعتبار سے الحمد
[1] سورة طه:5 [2] سنن ابوداود :۲۹۲۱؛ جامع ترمذی:4941؛ سلسلۃ احادیث الصحیحۃ:۹۲۵ [3] سورة الملك:15، 16