کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 44
یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ ان عبادات کو سمجھیں جن کے ذریعہ ہم اپنے ربّ کی عبادت کر سکیں،اور اﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سے کسی بندے کے لئے ان عبادتوں کو اَدا نہ کریں۔لازم ہے کہ اس تفصیل کا بیان بھی کلمۂ طیبہ کے اس مختصر معنیٰ کے ساتھ منسلک ہو۔ مناسب ہوگا کہ یہاں میں ایک یا اِس سے زیادہ مثالیں بیان کروں ، کیونکہ اجمالی بیان کافی نہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ بلا شبہ بہت سے مسلمان جو حقیقی موحدین ہیں اور عبادتوں میں سے کوئی بھی عبادت غیر اﷲ کے لئے ادا تو نہیں کرتے، لیکن ان کا ذہن بھی بہت سے ایسے صحیح افکار وعقائد سے خالی ہوتا ہے جن کا ذکر کتاب و سنت میں موجود ہے۔ پس ان موحدین میں سے بہت سے کئی آیاتِ قرآنی اور بعض احادیثِ مبارکہ پر سے گز ر جاتے ہیں جو کسی بنیادی عقیدے پر مشتمل ہوتی ہیں مگر وہ اس عقیدے سے باخبر اور مطلع ہوئے بغیر اس پر سے گزر جاتے ہیں، حالانکہ یہ اﷲ تعالیٰ پر ایمان کے اِتمام میں سے ہے۔ مثلاًیہ عقیدہ سامنے رکھیں کہ اﷲ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر علوّ و بلندی پر ایمان لانا۔ میں یہ بات اپنے تجربہ کی بنا پر جانتا ہوں کہ ہمارے بہت سے موحدین سلفی بھائی ہمارے ساتھ یہ کہتے کہ اﷲ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور بناتا ویل وتکییف کے اس کا اعتقاد رکھتے ہیں۔لیکن جب ان کے پاس موجودہ دور کے معتزلی یا موجودہ دور کے جہمی، یا ماتریدی یا اشعری آکر اس آیت کے ظاہر کو بنیاد بناکر کوئی شبہ اُن کے دلوں میں ڈالتے ہیں جس کا معنی نہ خود وسوسہ گرجانتاہے اور نہ ہی وسوسے کا شکار، تو وہ اپنے عقیدے کے بارے میں حیران وپریشان ہو جاتا ہے ، اوراس سے بہت دور کی گمراہی میں جا پڑتا ہے ، کیوں؟ کیونکہ اس نے صحیح عقیدے کو جس کا بیان و وضاحت ہمارے ربّ کی کتاب اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں پیش کی گئی ہے، ہرسمت سے اچھی طرح حاصل نہیں کیا۔ پس جب موجودہ دور کا کوئی معتزلی یہ کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں: ﴿ءَأَمِنتُم مَن فِى السَّماءِ...16﴾[1] ''کیا تم اس ذات سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان پر ہے۔'' اور تم لوگ یہ کہتے ہو کہ اﷲ تعالیٰ آسمان میں ہے، اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم نے اپنے
[1] سورة الملك:15، 16