کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 43
پہنچا ئے گا۔'' البتہ جو محض زبان سے اسے ادا کرے مگر اس کا معنیٰ نہ سمجھتا ہو، یا پھر معنیٰ تو سمجھتا ہو مگر اس معنی پر ایمان نہ رکھتا ہو، تو ایسے شخص کو اس کا لا إله إلا اللّٰه کہنا کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ اس قریب کی دنیاوی زندگی میں اگر وہ حکومتِ اسلامی کے تحت جی رہا ہے تو اسے یہ فائدہ پہنچا سکتا ہے لیکن بعد میں آنے والی دائمی زندگی میں تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ اسی لئے ضروری ہے کہ توحید کی دعوت پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھا جائے خواہ مسلمانوں کا کوئی بھی معاشرہ یا گروہ ہو جو حقیقتاً اور جلد از جلد یہ چاہتا ہے ...جیسا کہ تمام جماعتیں یا اکثر جماعتیں یہ دعوٰی کرتی ہیں ...کہ ایسی سر زمین جہاں اﷲ تعالیٰ کا شرعی نظام قائم نہیں، وہاں ایسے اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں اﷲ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے ہوں۔ یہ جماعتیں یا یہ تنظیمیں ممکن نہیں کہ اس غایت وہدف کو پاسکیں جسے حاصل کرنے کے لئے یہ سب جمع ہیں اور اسے جلد از جلد حقیقت کا روپ دینے کے لئے کوشاں ہیں اِلاّیہ کہ وہ اس چیز سے ابتدا کریں کہ جس سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا فرمائی تھی۔ عقیدے کا اہتمام کرنے کے وجوب کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ باقی شرعی عبادات، سلوک ، معاملات اور اخلاق سے لاپرواہی برتی جائے۔میں دوبارہ متوجہ کروں گا کہ میرا یہ کہنا کہ ''سب سے اہم ترین چیز سے شروع کیا جائے پھر جو اس کے بعد اہم ہو پھر جو اس سے کم تر '' سے مراد یہ نہیں کہ داعیان اپنی دعوت کو محض اس کلمۂ طیبہ اور اس کے معنیٰ کے فہم تک محدود کردیں، جبکہ اﷲ تعالیٰ نے تو اس نعمت کو اپنا دین مکمل کرکے تمام کردیا ہے! بلکہ ان داعیان کو چاہئے کہ اسلام کو بطور ایک ایسی اکائی کے لیں جو ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوتی۔ میری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ حقیقی داعیانِ اسلام کو چاہیے کہ اس چیز کا اہتمامِ خاص کریں کہ جو سب سے اہم ترین چیز اسلام لے کر آیا ہے یعنی مسلمانوں کو صحیح عقیدے کا فہم دینا جو کلمۂطیبہ لا إله إلا اللّٰه سے ماخوذ ہوتا ہے، اس پر اپنی دعوت کو مستحکم کریں۔ کلمہ طیبہ کے تقاضوں کےمطابق عبادات وعقائد میں توحید اس خلاصے کے بعد میں آپ کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہوں گا کہ ایک مسلمان لاإلٰه إلا اللّٰه کا معنیٰ فقط یہ نہ سمجھے کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود موجود نہیں بلکہ اس سے