کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 42
اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو۔'' اس بنا پر جب ایک مسلمان اپنی زبان سے لا إلٰه إلا اللّٰه کہتا ہے ، تو اسے چاہیے کہ اس اقرار کے ساتھ اس کلمے کی مختصر پھر تفصیلی معرفت کو بھی شامل کرے۔ جب وہ اسے جان جاتا ہے اور اس کی تصدیق کرکے اس پر ایمان لے آتا ہے تو ایسے شخص پر ہی وہ احادیث صادق آتی ہیں جو ہم نے ابھی بیان کیں۔ جن میں سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ جو میری بیان کردہ بات کی کسی قدر وضاحت کرتا ہے : ((من قال لا إله إلا اللّٰه ، أنجته یومًا من دهره)) [1] ''جس نے لا إلٰه إلا اللّٰه کہا ، وہ اسے کبھی نہ کبھی ضرور فائدہ پہنچا ئے گا۔'' یعنی یہ کلمۂ طیبہ اس کے معنیٰ کی معرفت حاصل کرلینے کے بعد جہنّم میں ہمیشہ رہنے سے نجات کا سبب ہے۔ اسے میں اس لئے دُہراتا ہوں تاکہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے:''یہ کلمہ نجات کا سبب بنے گا...'' اگر اس کا قائل جس بات کا یہ کلمہ متقاضی ہے ،اُنہیں بروئے کا ر لایا اور جو شرائطِ ایمان اس سے لازم آتی ہیں، اعمالِ قلبیہ ہوں یا ظاہری اعمال کے اُنہیں بجا لایا۔[2] اگرچہ اس کا قائل اس کے کمال کے تقاضوں جیسے عمل ِ صالح اور برائیوں سے اجتناب پر کاربند نہ بھی ہو سکا ہو لیکن شرکِ اکبرسے محفوظ رہا، تو وہ اﷲ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے ، ہو سکتاہے کہ وہ اپنے گناہوں کے ارتکاب یا بعض واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی کے سبب جہنم میں داخل ہو، پھر اسے یہ کلمۂ طیبہ نجات دلائے یا اﷲ تعالیٰ اس سے اپنے فضل وکرم سے درگزر فرما دے۔[3] یہ معنیٰ ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا جس کا ذکر پہلے گزر چکا:((من قال لا إلٰه إلا اللّٰه ، نفعته یومًا من دهره)) ''جس نے لا إلٰه إلا اللّٰه کہا ، وہ اسے کبھی نہ کبھی ضرور فائدہ
[1] السلسلۃ الصحیحۃ:۱۹۳۲؛ الحلیۃ الاولياء:۵/۲۶؛ الطبرانی فی الأوسط:۶۵۳۳ [2] جیساکہ بعض علماے کرام کا اجتہاد ہے جس کی کچھ تفصیل ہے جس کا یہ موقع محل نہیں۔ [3] یہی وہ عقیدہ سلف صالحین ہے جو ہمارے اور خوارج ومرجئہ کے درمیان حدِ فاصل ہے ۔