کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 41
اور ایک دوسری روایت ہے میں کہ دخل الجنة [1] (جنت میں داخل ہوگا ) ۔ پس جنت میں دخول کی ضمانت دینا ممکن ہے، چاہے اس کے کہنے والے کو جہنم میں کسی بھی قسم کا عذاب ملنے کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ جو کوئی اس کلمے کا صحیح اعتقاد رکھتا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ عذاب سے دوچار ہو، اپنے ان گناہوں کی پاداش میں جن کا وہ مرتکب ہوا۔ مگر اس کا آخری ٹھکانہ تو جنّت ہی ہے۔ اس کے برعکس جس نے زبان سے تو اس کلمے کو ادا کیا مگر دل سے صحیح ایمان نہ رکھتا تھاتو اسے یہ آخرت میں کوئی بھی نفع نہ پہنچا سکے گا، البتہ دنیا میں کچھ فائدہ پہنچا دے جیسا کہ اگر مسلمانوں کی قوت و سلطنت ہو تو اُس سے قتال یا اُس کا قتل نہیں کیا جائے گا ۔ لیکن آخرت میں وہ اُسے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچا سکے گا، اِلا یہ کہ اس نے اَوّلاً اس کے معنیٰ سمجھ کر پڑھا ہو اور ثانیاً اس معنی کا اعتقاد بھی رکھتا ہو۔ کیونکہ صرف فہم کا ہونا کافی نہیں جب تک اس فہم کا اعتقاد بھی ساتھ نہ ہو ۔
میرے خیال میں اکثر لوگ اس نکتے سے غافل ہیں اور وہ یہ کہ : ایمان کا فہم ہونا کافی نہیں جب تک دونوں اُمور یکجا نہ ہوں تاکہ وہ مؤمن کہلائے ۔ کیونکہ یہود ونصاری میں سے بہت سے اہل کتاب جانتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچّے رسول ہیں، اپنی رسالت اور نبوت کے دعوے میں صادق ہیں، لیکن اس معرفت کے ہوتے ہوئے کہ جس کی گواہی ہمارے رب تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمائی: ﴿ يَعرِفونَهُ كَما يَعرِفونَ أَبناءَهُم...146﴾[2]
''وہ اس (نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ایسے ہی جانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کوجانتے ہیں۔''
اس کے باوجود اس اکیلی معرفت نے اُنہیں اﷲ تعالیٰ کے ہاں کوئی فائدہ نہ پہنچایا ، کیوں؟ کیونکہ اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رسالت ونبوت کی تصدیق نہ کی جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوٰی فرماتے تھے ۔ اسی لئے معرفتِ ایمان سے پہلے ہے مگر اکیلی معرفت کافی نہیں، بلکہ معرفت کے ساتھ ساتھ ایمان و تسلیم لازمی ہے ، کیونکہ مولیٰ کریم عزوجل کا قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے:
﴿ فَاعلَم أَنَّهُ لا إِلـهَ إِلَّا اللَّهُ وَاستَغفِر لِذَنبِكَ...19﴾[3]
''جان لواور اس بات کا علم حاصل کرو کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور
[1] مسنداحمد:22625، صحيح ابن حبان :1/430 ، سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ:2355
[2] سورة البقرة:146
[3] سورة محمد:19