کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 40
کے اعتبار سے مو جودہ دور کے بہت سے مسلمانوں کی حالت جاہلیت کے دور کے عام عربوں سے بھی گئی گزری ہے، کیونکہ مشرکین عرب اس کا فہم تو رکھتے تھے مگر اس پر ایمان نہ لاتے تھے،جبکہ آج مسلمانوں کی غالب اکثریت ایسی بات تو کہتے ہیں(یعنی لا إله إلا اللّٰه ) لیکن وہ اس کا اعتقاد نہیں رکھتے ۔ کہتے تو ہیں:لا إلٰه إلا اللّٰه مگر کماحقہ اس کے معنیٰ پر ایمان نہیں رکھتے۔ اسی وجہ سے میرا یہی اعتقاد ہے کہ حقیقی داعیانِ اسلام پر واجب ہے کہ وہ اس کلمے کے گرد اپنی دعوت کو قائم کریں اور سب سے پہلے اس کے حقیقی معنیٰ اختصارسے بیان کریں پھر اس کلمۂطیبہ کے لوازم کا تفصیلی بیان کریں، کہ عبادات میں اس کی تمام تر صورتوں کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے لئے اخلاص ہو، کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے جب مشرکین کا یہ قول ذکر فرمایا: ﴿وَالَّذينَ اتَّخَذوا مِن دونِهِ أَولِياءَ ما نَعبُدُهُم إِلّا لِيُقَرِّ‌بونا إِلَى اللَّهِ زُلفى...3﴾[1] ''جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کے سوااور اولیا بنا رکھے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اسی لئے کہ یہ ہمیں اﷲ تعالیٰ سے قربت اور نزدیکی دلا سکیں۔'' تو اﷲ تعالیٰ نے ہر عبادت جو غیر اﷲ کے لئے کی جائے، کو کلمۂ طیبہ لا إله إلا اللّٰه کا انکار قرار دیا۔اسی لئے میں آج یہ کہتا ہوں: مسلمانوں کی جمعیتیں بنالینے اور اُنہیں جمع کرنے سے مطلقاً کوئی فائدہ نہیں اگرہم اُنہیں گمراہی میں ہی پڑا رہنے دیں اور اس کلمۂ طیبہ کا صحیح فہم اُنہیں بیان نہ کریں۔ محض اس طرح مسلمانوں کوجمع کرلینا اُنہیں اس دنیا تک میں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتا چہ جائیکہ آخرت میں کوئی فائدہ پہنچ پائے! ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان جانتے ہیں: ((من مات وهو یشهد أن لا إلٰه إلا اللّٰه مخلصًا من قلبه حرّم اللّٰه بدنه علىٰ النار)) [2] '' جوفوت ہوا اس حال میں کہ وہ لا إله إلا اللّٰه کی گواہی دیتا تھا، اپنے دل کے اخلاص کے ساتھ تو اﷲ تعالیٰ نے اس کے بدن کو جہنم کی آگ پر حرام قرار دیا ہے ۔''
[1] سورة الزمر:3 [2] موسوعۃ الالبانی فی العقيدة:2/15،34