کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 39
سوا دوسروں کی عبادت کرنا قرار دیا: ﴿وَالَّذينَ اتَّخَذوا مِن دونِهِ أَولِياءَ ما نَعبُدُهُم إِلّا لِيُقَرِّ‌بونا إِلَى اللَّهِ زُلفى...3﴾[1] ''جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کے سوااور اولیا بنا رکھے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم اُن کی عبادت نہیں کرتے مگر اسی لئے کہ یہ ہمیں اﷲ تعالیٰ سے قربت اور نزدیکی دلا سکیں۔'' مشرکین یہ بات جانتے تھے کہ لا إله إلا اللّٰه کا اقرار اس بات کا متقاضی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے سو ا ہر ایک کی عبادت کو چھوڑنا ہو گا۔ جبکہ آج مسلمانوں کی غالب اکثریت اس کلمۂ طیبہ لا إله إلا اللّٰه (اﷲ تعالیٰ کے سو ا کوئی معبود حقیقی نہیں) کی تفسیر'لا رَبّ الا اللّٰه !' (اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی ربّ نہیں) کر تی ہے۔ اگر کوئی مسلمان "لا إله إلا اللّٰه " کہے مگر وہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کی بھی عبادت کرے تو وہ عقیدۃً مشرک ہی ہے اگر چہ ظاہری اعتبار سے وہ مسلمان ہے ، کیونکہ اس نے کلمے "لا إلٰه إلا اللّٰه " کو زبان سے پڑھا ہے تو وہ اس زبانی اقرار کے سبب لفظی اعتبار سے ظاہری مسلمان ہے۔ اسی وجہ سے ہم پر داعیانِ اسلام ہونے کے ناطے،توحید کی دعوت اور جو لا إله إلا اللّٰه کے معنی سے جاہل ہے او راس کی عملاً مخالفت کرتا ہے، اس پر حجّت تمام کرنا واجب ہے۔ اُن کا معاملہ مشرکوں سے اس طور پر الگ ہے کہ جو لا إله إلا اللّٰه کہنے سے ہی انکاری ہے تو وہ مسلمان نہیں نہ ظاہراً نہ باطناً،جبکہ مسلمانوں کی آج یہ بہت کثیر تعداد (جن میں عقائد کا بگاڑ پایا جاتا ہے) ظاہراً مسلمان ہیں کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((فإذا فعلوا ذٰلك عصموا منّي دماءهم وأموالهم إلا بحقّها وحسابهم علىٰ اللّٰه تعالىٰ))[2] ''اگروہ اس کلمے کو پڑھ لیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال محفوظ کر لیں گے سوائے اسلامی اعتبار سے اُن کی جان ومال لینے کا کوئی حق بنتا ہوا اور ان کے باقی اعمال کا حساب اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ پر ہے۔'' اسی لئے میں ایک بات کرتا ہوں اور ایسی بات میں شاذ ونادر ہی کہتا ہوں کہ کلمے کے غلط فہم
[1] سورة الزمر:3 [2] صحیح بخاری:۲۵؛صحیح مسلم :۲۲