کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 38
بھی عبادت کرتے تھے۔پس وہ غیر اﷲ کی نذرونیاز، غیر اﷲ سے توسل ، غیر اﷲ کے لئے ذبح اور اﷲ تعالیٰ کے حکم کے سو ا دوسرے احکام پر چلتے یہاں تک کہ وہ غیر اﷲ سے استغاثہ (فریاد) تک کرتے تھے۔
یہ وہ مشہور شرکیہ اور وثنیہ (بت پرستی، قبر پرستی وغیرہ) وسائل ہیں جن میں وہ مبتلا تھے ، اس کے باوجود وہ اس کلمۂ طیبہ لا إله إلا اللّٰه کے لوازم کو عربی لغت کے اعتبار سے جانتے تھے کہ ان تمام اُمور کو چھوڑنا پڑے گا، کیونکہ یہ لا إلٰه إلا اللّٰه کے معنیٰ کے منافی اُمور ہیں۔
'کلمہ طیبہ کا اقرار کرنے والا مسلمان ہے!' کا صحیح مفہوم
جبکہ آج کے مسلمان جو "لا إله إلا اللّٰه " کی گواہی دیتے ہیں وہ اس کے معنیٰ اچھی طرح نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس کا مکمل طور پر برعکس معنیٰ سمجھتے ہیں۔ میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتا ہوں:
اُن میں سے بعض نے "لا إله إلا اللّٰه " کے معنیٰ پر ایک رسالہ تالیف [1]کیاتو اس میں لا إله إلا اللّٰه کا معنی '' لا ربّ الا اللّٰه !!''(اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی ربّ نہیں) کیا۔ یہ تو وہ معنیٰ ہے جس پر مشرکین بھی ایمان رکھتے تھے، اور اسی پروہ گامزن تھے، مگر ان کے اس ایمان نے اُنہیں کوئی فائد ہ نہیں پہنچا یا ، اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمـوتِ وَالأَرضَ لَيَقولُنَّ اللَّهُ25﴾
''اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر آپ اُن سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کا خالق کون ہے تو وہ ضرور بالضرور کہیں گے کہ: اﷲ(ہی) ان کا خالق ہے۔''
پس مشرکین اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے جس کا کوئی شریک نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں اس کی برابری والے اور شریک مقرر کرتے تھے۔ وہ اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ رب واحد ہے مگر معبودات بہت سے ہیں۔ اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے اس عقیدہ کو ردّ فرمایا اور اپنے اس فرمان سے اسے اﷲ تعالیٰ کے
[1] یہ صوفی طریقۂ 'شاذلیہ'کے شیخ محمد ہاشمی ہیں جو ملک شام میں تقریباً پچاس سال سے شیخ یا پیر صاحب ہیں۔