کتاب: محدث شمارہ 362 - صفحہ 36
اور اہتمام اسی دعوتِ توحید پر صرف فرمایا،لیکن اُن کی قوم نے اُن کی دعوت سے اِعراض برتا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب میں بیان فرمایا: ﴿وَقالوا لا تَذَرُ‌نَّ ءالِهَتَكُم وَلا تَذَرُ‌نَّ وَدًّا وَلا سُواعًا وَلا يَغوثَ وَيَعوقَ وَنَسرً‌ا ﴿23﴾[1] ''اور اُنہوں نے کہا: ہر گز نہ چھوڑنا اپنے معبودات کو ، نہ چھوڑنا وَدّ، سواع ، یغوث، یعوق اور نسرکو۔'' پس یہ دلائل اس بات پر قطعی دلالت کرتے ہیں کہ وہ داعیان کو جو 'صحیح وبرحق اسلام' کی جانب دعوت دینا چاہتے ہیں، اُن کے نزدیک سب سے اہم چیز اور جس کی دعوت کا ہمیشہ اہتمامِ خاص کرنا چاہئے وہ دعوتِ توحید ہے اور یہی معنیٰ ہے اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان کا: ﴿ فَاعلَم أَنَّهُ لا إِلـهَ إِلَّا اللَّهُ...19﴾[2] ''جان لو، اس بات کا علم حاصل کرو کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔'' اور یہی تھی سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم عملاً و تعلیماً...!! جہاں تک اُن کے فعل کا تعلق ہے تو اس پر زیادہ ڈھونڈنے یا ریسرچ کی ضرورت نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال اور دعوت کا غالب حصہ اپنی قوم کو اس بات کی دعوت دینے پر منحصر تھا کہ ایک اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں۔ جہاں تک تعلیم کا معاملہ ہے تو انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے جو صحیح بخاری و مسلم میں وارد ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ فرمایا تو حکم ارشاد فرمایا : ((فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ عِبَادَةُ اللّٰه ، فَإِذَا عَرَفُوا اللّٰه ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللّٰه قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِهِمْ وَلَيْلَتِهِمْ، فَإِذَا فَعَلُوا، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللّٰه فَرَضَ عَلَيْهِمْ زَكَاةً مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِذَا أَطَاعُوا بِهَا، فَخُذْ مِنْهُمْ وَتَوَقَّ كَرَائِمَ أَمْوَالِ النَّاسِ)) [3]
[1] سورة نوح:23 [2] سورةمحمد:19 [3] صحیح بخاری:1458؛صحیح مسلم:۱۹؛سنن ابوداؤد:۱۵۸۴؛جامع ترمذی:۶۲۵